مسقط (ایجنسیاں، نیوز ڈیسک، مانیٹرنگ) خلیجی ریاست عمان میں امریکا اور ایران کے مابین باولواسطہ جوہری مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا۔ فریقین نے ہفتے کو ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات میں آئندہ ہفتے مزید بات چیت پر اتفاق کیا ہے۔ مذاکرات کے دوران دونوں ممالک کے وفود علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھے رہے اور عمانی وزیر خارجہ نے ان بالواسطہ مذاکرات میں دونوں فریقین کے مابین پیام رسانی کا کام سرانجام دیا۔ ایرانی وفد کی قیادت ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی وفد کی نمائندگی ٹرمپ کے نمائندے اور رئیل اسٹیٹ کاروبارکے بڑے تاجر اسٹیووٹکاف نے کی۔ فریقین نے مذاکرات کو تعمیر ی قرار دیا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگرونوں ممالک ڈیل پر نہیں پہنچتے تو فوجی کارروائی کی جائے گی۔ اے ایف پی کے مطابق امریکیوں نے مذاکرات روبرو کرنےکےلیے کہا تھا ۔ تاہم فریقین چند منٹ تک ایک دوسرے سے براہ راست مخاطب بھی ہوئے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق بات چیت تعمیری تھی اور باہمی احترام کے ماحول میں ہوئی۔ عمانی وزیر خارجہ بدرالبوسعیدی کا کہنا ہے کہ مذاکرات دوستانہ فضامیں ہوئے ۔دریں اثناءوائٹ ہاؤس نے عمان میں ایران اور امریکا کے مذاکراتی عمل کو مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے امریکا کی ایران سے عمان میں جاری بات چیت پر ردعمل دیا اور کہا کہ بات چیت بہت مثبت اور تعمیری تھے۔، دونوں فریقین نے اگلے ہفتے کو دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔اعلامیے کے مطابق امریکی نمائندے وٹکوف نے ایرانی وزیرخارجہ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بات چیت کی ہدایت کا بتایا۔وائٹ ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق وٹکوف نے بتایا صدر ٹرمپ نے ہدایت دی ہے کہ ممکن ہو تو دونوں ممالک کے اختلافات بات چیت اور سفارتکاری سے حل کیے جائیں۔وائٹ ہاؤس اعلامیے کے مطابق وٹکوف کا براہ راست رابطہ باہمی فائدے کے نتیجے کی طرف ایک قدم تھا، دونوں فریقین نے اگلے ہفتے کو دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔مبصرین کے مطابق یہ امر کہ مذاکرات کے فارمیٹ پر ہی دونوں ممالک میں اختلاف موجود ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس راستے میں ابھی کتنی مشکلات باقی ہیں۔ ایرانی وزیر خزانہ عباس عراقچی نے کہا کہ ہم مل کر کام کرتے رہیں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کے سرکاری میڈیا کو بتایا ’ اگر امریکا برابری کی بنیاد پر مذاکرات میں شامل ہو تو ابتدائی مفاہمت کا امکان موجود ہے تاہم مذاکرات کے دورانیے سے متعلق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے‘۔ان کا کہناتھا کہ ابھی پہلی ملاقات ہوئی ہے اور میں کئی بنیادی اور ابتدائی امور کو واضح کیا گیا ہے، اس دوران یہ بھی دیکھا جائے گا کہ دونوں فریقین مذاکرات کے حوالے سے کتنا سنجیدہ ہیں اور ان کے کیا ارادے ہیں، اس کے بعد ہی ٹائم لائن کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ایک ایرانی عہدیدار نے برطانوی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عباس عراقچی کو مذاکرات کے لیے ’مکمل اختیار‘ دے دیا ہے۔امریکی قیادت میں مغربی ممالک نے کئی دہائیوں سے تہران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں، ایران اس الزام کو مسترد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف سویلین مقاصد کے لیے ہیں۔ہفتہ کے روز، پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ حسین سلامی نے کہا کہ ملک جنگ کے لیے تیار ہے۔