انگلینڈ میں مسلمان قیدیوں کو عملے کی جانب سے طاقت کے غیر متناسب استعمال کا سامنا ہے۔
سماجی انصاف پر توجہ مرکوز کرنے والی فلاحی تنظیم مصلاحہ نے 9 جیلوں میں ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے درخواستیں جمع کروائیں جن کی خصوصیت اوسط سے زیادہ مسلم قیدیوں کی ہے۔
9 جیلوں حاصل کردہ ڈیٹا کے مطالعے کے نتائج کے مطابق انگلینڈ میں مسلمان قیدیوں کو اصلاحی عملے کی جانب سے طاقت کے غیر متناسب استعمال کا سامنا ہے۔
مطالعے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ نمایاں مسلم آبادی والی 9 جیلوں میں سے 8 میں مسلم قیدیوں کو ان کے غیر مسلم ہم منصبوں کے مقابلے میں لاٹھیوں، سخت ہتھکڑیوں اور زد و کوب کا نشانہ بنائے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو کہ درد ناک ہے۔
یہ نتائج گزشتہ کچھ خطرناک واقعات کے بعد اصلاحی نظام کے اندر مبینہ مسلم گروہوں کی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبات کے درمیان سامنے آئے ہیں۔
مطالعے کے مطابق 2023ء میں مسلمان قیدیوں کی آبادی کا تناسب 32 فیصد تھا اور اسی عرصے کے دوران 43 فیصد واقعات میں مسلمان مردوں کو نشانہ بنایا گیا۔
مطالعے میں بتایا ہے کہ 9 جیلوں میں سے صرف ایک جیل ’ایچ ایم پی- دی ماؤنٹ اِن بوونگڈن، ہرٹ فورڈ شائر‘ میں مسلمانوں کے لیے مجموعی آبادی کے مقابلے میں طاقت کا استعمال کم تھا۔
مصلاحہ کے ڈائریکٹر راحیل محمد نے بتایا ہے کہ یہ اعداد و شمار جیل میں قید مسلمانوں کے لیے زندگی کی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان قیدیوں کو طاقت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تشدد کرنے کے لیے خطرناک طریقوں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور جان بوجھ کر ان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے۔
جیل آفیسرز ایسوسی ایشن کے سربراہ مارک فیئر ہرسٹ نے فلاحی تنظیم کی جانب سے اعداد و شمار کی مدد سے کی گئی تشریح سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عملہ صرف آخری حربے کے طور پر طاقت کا استعمال کرتا ہے۔