• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان کی خوش حالی میں پاکستان کیلئے پوشیدہ اسباق

جدید طرزِتعلیم، مضبوط جمہوری نظام اور ہم سایہ ممالک سے خوش گوار تعلقات جیسے اوصاف اپنا کے ہم بھی ترقّی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں
جدید طرزِتعلیم، مضبوط جمہوری نظام اور ہم سایہ ممالک سے خوش گوار تعلقات جیسے اوصاف اپنا کے ہم بھی ترقّی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں

جاپان کا شمار دُنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نےگزشتہ ڈیڑھ سوسال کے دوران حیرت انگیز کارنامے انجام دیے اور اِس ضمن میں پاکستان، جاپان سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، لیکن ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہم پچھلے 75سال سے امریکا کے زیرِاثر ہیں یا ہمیں چین سے دوستی پر فخر ہے، جو کہ ہونا بھی چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم دیگر ممالک کو یک سرنظر اندازہی کردیں۔ پاکستان، جاپان کے مابین 73برس سے سفارتی تعلقات قائم ہیں اور اِس طویل عرصے میں ہم جاپان سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے بلکہ اب بھی سیکھ سکتے ہیں۔

اِس مقصد کے لیے دونوں ممالک کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ 1868ء میں آنے والے ’’میجی انقلاب‘‘ سے قبل جاپان ایک الگ تھلگ مُلک تھا، جو دُنیا کے نقشے پر بمشکل ہی نظر آتا تھا، لیکن پھر یہ نہایت تیزی سے ایک صنعتی مُلک میں تبدیل ہوتا چلاگیا اور اس دوران جاگیردارانہ نظام نے سرمایہ کاری کا راستہ روکنے کی بجائے اسے مزید وسعت دی۔ جاپان کی تیز رفتار ترقّی میں سب سےاہم کردار سرعت سے بڑھنے والی شرحِ خواندگی نے ادا کیا کہ جس کے سبب 50 برس سے بھی کم عرصے میں جاپان دُنیا کے ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگیا۔ 

یعنی بیسویں صدی کے اوائل میں جاپان تیز رفتار ترقّی کے سفر پرگام زن ہوچُکا تھا۔ تو ہم جاپان سےپہلا سبق یہ سیکھ سکتے ہیں کہ ترقّی کے لیے جدید ترین تعلیم کی ترویج واشاعت نہایت ضروری ہے۔ جاپان نے اپنے تعلیمی نظام میں سدھار لاکر محض چند عشروں میں مُلک میں خواندگی کےتناسب میں ناقابلِ یقین حدتک اضافہ کیا، جو ہم پچھلے 78 برسوں میں بھی نہیں کر سکے۔

آج بھی مُلک میں شرحِ خواندگی بمشکل 60 فی صد ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں کہ جو صرف اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ جاپان نے تعلیم کے فروغ کے لیے دو اہم ترین فیصلے کیے۔ جاپانی حکومت نے ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے لیے بلاامتیاز خاطر خواہ وسائل مختص کیے اور ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ تمام تر توجّہ جدید ترین تعلیم پر مرکوز کی۔ اس ضمن میں سائنسی طریقۂ کار اپنایا گیا۔

اس کے برعکس ہمارے تعلیمی اداروں میں، خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی یا مدراس، طلبہ کو بس رٹّا لگانے پر لگا دیا گیا ہے۔ ہم ایک ہی جیسے مواد کو بار بار دُہراتے رہتے ہیں، نتیجتاً طلبہ تعلیم ہی سے اُکتا جاتے ہیں۔ ہمیں بھی جاپان کی تقلید کرتے ہوئے جدید علوم، سائنسی طریقۂ کار کے تحت پڑھانے کی ضرورت ہے۔ 

یہاں قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ جدید علوم اور جدیدیت کے فروغ کے باوجود آج بھی جاپانی باشندے اپنی قدیم رسومات پر بھی عمل پیرا ہیں، البتہ اُن کے معاشرتی نظام پر دقیانوسی خیالات وافکار کا غلبہ نہیں اورنہ ہی جاپانی اپنےعقائد کی بےجا نمود ونمائش کرتے ہیں۔

وہ لوگ صرف پیدائش، اموات، شادیوں یا تہواروں کے مواقع پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، نیز، اُن کے ہاں فرقہ واریت کا بھی کوئی تصورنہیں، جب کہ ہمارے یہاں یہ رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسی طرح جاپان میں استدلال کی بالا دستی ہے، نہ کہ تقلید اور تاویلات کی۔ جاپانی معاشرہ مجموعی طور پر ایک روشن خیال معاشرہ ہے، جہاں ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی یا اپنے عقائد دوسروں پر تھوپنے کاخبط سوار نہیں۔

ماضی میں جھانکا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ جاپان کی تیز رفتار ترقّی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جاپانیوں نےسُستی وکاہلی ترک کرکے اَن تھک محنت کو اپنا شعار بنایا۔ ابتداً اِس برق رفتار ترقّی نے جاپان کو گھمنڈ میں مبتلا کردیا، تو وہ عسکریت پسندی اور جنگ وجدل کی جانب راغب ہوا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کے ابتدائی چار عشروں کے دوران جاپان پورے ایشیا پر بالادستی حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا رہا۔ اُس نے کوریا اور چین پر چڑھائی بھی کی۔ 1910ء میں کوریا پر قبضے کے بعد 1930ء کے عشرے میں چین کے ایک بڑے حصّے پر قبضہ کرلیا اور دوسری عالمی جنگ میں ایک بہت بڑی طاقت بن کر اُبھرا۔

اس عرصے میں جاپان نے تقریباً آدھے ایشیا کو اپنے زیرِنگیں کرلیا تھا۔ تاہم، پھر جاپان کو اپنے اس جنگی جنون کاخمیازہ دوسری عالمی جنگ میں اتحادی افواج کے ہاتھوں شکستِ فاش اور ہیروشیما، ناگاساگی پرایٹم بم گرائے جانے کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کے لقمۂ اجل بننے کی صُورت بھگتنا پڑا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کسی مُلک کو اپنی عسکری طاقت پر خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے پڑوسی ممالک کو ڈرانا دھمکانا چاہیے، جیسا کہ اس خطّے میں افغانستان، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ کرتےرہتےہیں۔

علاوہ ازیں، مذکورہ ممالک اپنی ہم سایہ ریاستوں کے معاملات میں مداخلت سے بھی باز نہیں آتے اور اس کوشش میں خُود کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے برعکس جاپان نے 1945ء کی شکستِ فاش اور تباہی و بربادی سے سبق سیکھا اور جب 1952ء میں جاپان سے اتحادی افواج کا قبضہ ختم ہوا، تو اُس نےایک بار پھرتعمیر و ترقّی کی راہ اپنائی۔ 

اس دوران اپنے دفاعی اخراجات کو خاصا کم کیا، جس سے اُسے تعمیر و ترقّی میں مدد ملی، جب کہ اس کے برعکس ہماری ناکام خارجہ اور داخلی پالیسیز کے نتیجے میں پاکستان کے اندر امن قائم ہےاور نہ ہی سرحدوں پر۔ اسی سبب عوام کو دہشت گردی، غُربت، بےروزگاری اور بُھوک و افلاس سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان اور جاپان کے مابین سفارتی تعلقات 1952ء میں قائم ہوئے اور پھر 1957ء میں اُس وقت کے پاکستانی وزیرِاعظم، حسین شہید سہروردی نے اپنےایک سالہ دورِوزارتِ عُظمیٰ میں جاپان اور چین دونوں سےخوش گوار تعلقات کی راہ ہم وار کی، لیکن پھر جلد ہی سہروردی کو استعفیٰ دینے پر مجبورکردیا گیا اور بعدازاں جنرل ایّوب خان نے جاپان سے کچھ سیکھنے کی بجائے مُلک میں جمہوریت کے خاتمے پر توجّہ مرکوز کردی، جب کہ 1957ء سے 1972ء تک تین جاپانی وزرائے اعظم، کیشی، اکیدہ اور ساتو نے اپنےمُلک کو مضبوط معاشی و صنعتی بنیاد فراہم کی اور جاپان جلد ہی ایک مرتبہ پھر ایک خوش حال مُلک بن گیا۔ 

جاپان کی اس ترقّی میں مُلک کے مضبوط جمہوری اداروں نے اہم کردار ادا کیا، جب کہ اس عرصے میں پاکستان میں آمریت قائم رہی، یہاں تک کہ اس کے سبب ہم اپنا مشرقی بازو بھی گنوا بیٹھے۔ پاکستان میں جمہوری اصولوں سے رُوگردانی اور اکثریتی جماعت کو اقتدار نہ دینے کا نتیجہ جنگ میں شکست کی صُورت سامنے آیا، جب کہ جاپان میں اس سارے عرصے میں جمہوریت کام یابی سے رواں دواں رہی، کیوں کہ جاپانی فوج 1945ء میں اپنی شکست سے سبق حاصل کرچُکی تھی۔ سو، وہ سویلین معاملات میں مداخلت سے باز رہی، جب کہ پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا اور ملک مسلسل طالع آزماؤں ہی کی گرفت میں رہا۔

جاپان کی خوش حالی، تیز رفتار ترقّی سے ہمیں اگلا سبق یہ ملتا ہےکہ ہمیں اپنے عوامی نمائندوں پر بھروسا کرناچاہیے۔ ہر ایک کو مسلسل، ’’چور، چور‘‘ کہنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ جاپان میں بھی بدعنوانی کے کئی اسکینڈلز سامنے آئے، مگر اُن کی آڑ میں سویلین قیادت کی تذلیل نہیں کی گئی۔ 1980ء کے عشرے میں بھی جاپان کے وزرائے اعظم نے مُلک کو آگے بڑھایا، جب کہ اسی عرصے میں پاکستان میں ایک آمرحُکم راں، جنرل ضیاءالحق فرقہ واریت اور تنگ نظری کی سیاست کو ہوا دے رہے تھے۔

اِسی دوران پاکستان، افغانستان کی جنگ میں بھی کُود پڑا، جس کے نتیجے میں مہاجرین کی بڑی تعداد کی صُورت نہ صرف مُلکی وسائل پر شدید دباؤ بڑھا، بلکہ کلاشنکوف، ہیروئن کلچر بھی پروان چڑھا۔ گرچہ 1990ء سے 2000ء تک جاپان کو بھی سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا کہ محض دس سال کے عرصے میں وہاں8 وزرائےاعظم تبدیل ہوئے، لیکن اس سیاسی عدم استحکام کےباوجود بھی وہاں کبھی جمہوری نظام لپیٹنے کی کوشش نہیں کی گئی، کہ بہرکیف، وزرائے اعظم کی تبدیلی جمہوری عمل کاحصّہ ہے، جس میں ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرۂ کارمیں رہتے ہوئے اپنی ذمّےداریاں نبھاتے ہیں۔

یاد رہے،جاپان میں سربراہِ مملکت شہنشاہ ہوتا ہے، مگر وہ کبھی وزیرِاعظم کو برطرف نہیں کرتا اور نہ ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لیتا ہے، جب کہ پاکستان میں 20ویں صدی کے زیادہ تر عرصے میں سربراہانِ مملکت(صدرغلام اسحٰق خان، فاروق لغاری) وزرائے اعظم کے امور میں مداخلت کرتے رہے اور اُنہیں پے درپے برطرف کیا گیا۔ اور یہ کسی تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں نہیں، سربراہانِ مملکت کی صوابدید پرکیا گیا۔ پاکستان 1999ء سے 2008ء تک ایک بار پھر فوجی آمریت تلے رہا، جب کہ جاپان میں جمہوریت مستحکم ہوئی۔ 

وہاں 2001ء سے 2006ء تک وزیرِاعظم کوئی زومی برسرِاقتدار رہے، جن کے بعد 6 برس میں 6 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جمہوریت مستحکم ہو یا غیرمستحکم، جمہوری نظام کو چلنے دینا چاہیے تاکہ یہ نظام خُود اپنی غلطیوں سےسبق سیکھے۔ عوامی نمائندے غلط یا صحیح فیصلے کرسکتے ہیں، مگر کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی جمہوری یا سویلین حکومت کو ’’ایک صفحے‘‘ پر آنے کا حُکم دے، کیوں کہ یہ ’’ایک صفحہ‘‘ پاکستان میں عام طور پر جمہوری حکومتوں کولکھ کر دیا جاتا ہے۔بلاشُبہ جمہوری نظام سے بھی کوئی مثالی، آئیڈیل حکومت قائم نہیں ہوجاتی، لیکن بہرحال نظام کو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں سے سیکھنے اوردُرست ہونے کا موقع دینا چاہیے اور اس تمام عرصے میں غیرسیاسی قوّتوں کو مداخلت سے قطعاً گریز کرنا چاہیے۔

اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں جاپان نے وزیرِاعظم، شنزوایبے کے دَور میں خاصا مستحکم عرصہ دیکھا۔ انہوں نے 2012ء سے 2020ء تک حکومت کی اور جاپان کی حالیہ تاریخ میں طویل ترین عرصے تک حکومت کرنے والے وزیرِاعظم بن گئے۔ پاکستان میں پچھلے 70 سال سے ایک پابند جمہوریت ہے، جولڑکھڑاتی، ڈگمگاتی ہی رہتی ہے، جب کہ اس کے برعکس جاپان میں مکمل سویلین بالا دستی ہے اور جاپان کے منتخب حُکم ران اپنے تمام سیاسی و معاشی فیصلے مکمل آزادی سے کرتے ہیں۔ 

اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی خود بناتے ہیں، نیز اُنہیں غیرسیاسی قوّتیں کوئی ’’صفحہ‘‘ لکھ کر نہیں دیتیں۔ وہاں عدلیہ بھی آزاد ہے، جو سیاست میں قطعاً مداخلت نہیں کرتی۔ جاپان کی عدلیہ انتظامی فیصلے کرتی ہے اور نہ ہی اُس نے کبھی کسی وزیرِاعظم کو اُس کے عُہدے سے برطرف کیا یا نا اہل قرار دیا ہے۔ 

عدلیہ اپنا بنیادی کام یعنی عوام کو انصاف کی فراہمی اور فوج صرف سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ 1945ء سے اب تک جاپان میں 38وزرائےاعظم آئے اور ان کی اوسط مدّت بمشکل دو سال رہی، لیکن کسی نے بھی پارلیمانی جمہوریت کو چھوڑ کر صدارتی نظام لانے کا مطالبہ نہیں کیا اور غالباً یہی جاپان کی ترقی اور کام یابی کے عوامل میں ایک اہم ترین عمل ہے کہ سب اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود جمہوری نظام بار بار لپیٹنےکی بجائے اُسے جاری و ساری رہنے دیتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید