اسلام آباد(عمرچیمہ ) بھارت کے ایک ممتاز ماہرِ آبی وسائل نے مودی حکومت کی جانب سے پاکستان کی طرف پانی کے بہاؤ کو روکنے کے منصوبے کو "لاحاصل مشق" قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ انڈس واٹرز ٹریٹی کو ختم کرنے کا نتیجہ دونوں ممالک کے درمیان تلخی میں مزید اضافے کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔
ان کے مطابق بھارت کو پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے درکار انفراسٹرکچر تیار کرنے میں مزید 30سے 50سال لگیں گے۔
افتخار اے درابو، جو سول انجینئر ہیں اور بھارت و چین کے ہائیڈرو سیکٹر میں 15 سال سے زائد تجربہ رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی کمپنیوں کے سابق مشیر رہ چکے ہیں، نے یہ تجزیہ نئی دہلی میں قائم موقر تھنک ٹینک "آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن" میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں پیش کیا۔
انہوں نے اپنے مضمون کے اختتامی حصے میں لکھا:"بھارت پر صرف مزید تلخی پیدا کرنے کی ذمہ داری آئے گی، لیکن فوری طور پر اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔"انہوں نے انڈس واٹرز معاہدے سے چھیڑ چھاڑ کی کسی بھی کوشش کو "خطرناک مہم جوئی" قرار دیا۔
درابو نے وضاحت کی کہ پانی کے بہاؤ کو روکنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں: یا تو پانی کو ذخیرہ کرنا یا دریاؤں کا رخ موڑنا — اور دونوں کو انہوں نے عملی طور پر ناممکن قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ تین مغربی دریا — دریائے سندھ، چناب اور جہلم — پاکستان کو مجموعی پانی کے بہاؤ کا تقریباً 80 فیصد (117 ارب مکعب میٹر) فراہم کرتے ہیں۔یہ مقدار ہر سال تقریباً 120,000 مربع کلومیٹر رقبے کو ایک میٹر گہرائی تک ڈبونے کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے مزید کہا"اگر اسے ذخائر کی گنجائش کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ پانی ہر سال وادی کشمیر کو سات میٹر گہرائی تک ڈبونے کے لیے کافی ہوگا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس قدر پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بھارت کو تہری ڈیم جتنے 30 ڈیمز درکار ہوں گے — جو بھارت کا سب سے اونچا ڈیم ہے۔"اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز کی تعمیر کے لیے زمین کہاں سے آئے گی؟"
درابو نے سوال اٹھایا۔تعمیراتی مدت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک تہری سائز کے ڈیم کی تعمیر میں تقریباً ایک دہائی لگتی ہے۔
اگر آج سے ہی 30 ڈیمز پر بیک وقت کام شروع بھی کر دیا جائے، تب بھی پہلا پانی ذخیرہ 2030 سے پہلے ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہر سال مزید 30 بڑے ڈیمز کی ضرورت ہوگی، جو کہ ایک مکمل طور پر ناقابل عمل منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ"ایسا منصوبہ لاکھوں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری، ہزاروں ایکڑ زمین کے حصول اور کئی دہائیوں پر محیط عرصے کا متقاضی ہوگا۔
"درابو نے زور دیا کہ خواہ ذخیرہ ہو یا انحراف، دونوں صورتوں میں پاکستان کو آئندہ 30 سے 50 سال تک پانی کی سپلائی میں کوئی نمایاں کمی محسوس نہیں ہوگی۔
انہوں نے ماحولیاتی تباہی کے شدید خطرات کی بھی نشاندہی کی۔درابو نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا:"اگر آج بھارت انڈس واٹرز معاہدہ ختم بھی کر دے تو پاکستان کو فوری طور پر کوئی آبی نقصان نہیں ہوگا۔
پانی کا بہاؤ بدستور جاری رہے گا جب تک بھارت ان دیو قامت منصوبوں کو مکمل نہیں کر لیتا۔"تاہم، درابو نے سیاسی اثرات کے حوالے سے خبردار کیا کہ"انڈس بیسن پر پاکستان کی 90 فیصد زراعت کا انحصار ہے اور 40 فیصد سے زائد آبادی روزگار حاصل کرتی ہے۔
ایسے میں بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کے عام شہری کو اپنی ریاست کے گلا گھونٹنے کے مترادف محسوس ہوگی۔"