• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاحبِ طریقت بزرگ ’’حضرت ادب گلشن آبادیؒ‘‘

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

تزکیۂ نفس وہ تربیت ہے جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ شیطانی حربوں کا بآسانی مقابلہ کر سکتا ہے اور نفسانی خواہشات پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے۔ یہ صلاحیت صرف کتاب پڑھ لینے سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے جس کا صاحبِ قرآن ﷺ بہترین عملی نمونہ ہیں۔ آپ ﷺ قرآن کی ہر آیت پر سب سے پہلے خود عمل کرنے والے تھے۔ یوں آپ کی ذاتِ مقدسہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات قرآنیہ کی لیبارٹری ہے ۔ 

یہاں سے لوگ نفس کی پاگیزگی حاصل کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یعنی تزکیۂ نفس آپ کی اتباع ہے۔ تزکیہ کا مقصد نفس کو برائیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا اور اپنی شخصیت کو نشوونما دینا ہے، ہمارے نزدیک یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ 

انبیائے کرامؑ نفوس انسانی کا جو تزکیہ کرتے تھے، اس میں دونوں چیزیں شامل ہیں اور اسی کا نام تربیت ہے۔ انبیائے کرامؑ اور خاتم النبیین ﷺ کے بعد افرادِ امت کا تزکیۂ نفس اور تربیتِ علم و عمل کا یہ فریضۂ نبویؐ صحابۂ کرامؓ اور امت کے علما ء ، صلحاء، فقہاء اورصوفیاء و اولیائے کرام قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیتے رہے۔ 

یہ مربیّ و مزکیّ افراد امت کے علماء و فقہا، اولیاء و صلحاء ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں خود اپنے تزکیۂ نفس اور تربیت علم و عمل کے لئے متقی و صالح بندوں کو تلاش کرنا ہوگا اور پھر ان کی صحبت و مجلس میں بیٹھ کر دینی تعلیم کے زیور سے خود کو آراستہ کرنا ہوگا۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ وہ صالح اور متقی بندے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کے ساتھ ساتھ اپنے گرد جمع ہونے والوں کی زندگیوں کو دین کے سانچے میں ڈھالا ہوا ہے۔ 

انہی دین کے مجسم پیکر علم و عمل، صالح و متقی بندوں میں سے ایک تربیت و تزکیہ یافتہ اور انسانوں کی اصلاح اور تربیت و تزکیہ کرنے والی شخصیت حضرت ادب گلشن آبادی نقشبندی مجددی حیدریؒ کی ذاتِ گرامی بھی ہے۔ آپ کی شخصیت شریعت و طریقت ، تصوف و سلوک اوراسلامی و صوفیانہ شاعری کا حسین امتزاج تھی۔ 

حضرت ادبؔ گلشن آبادی ؒ ابلاغ دین اور تفہیم تصوف وسلوک کی عملی صوفیانہ روایت کو فروغ دیتے ہوئے اپنے حلقۂ ارادت و عقیدت میں داخل ہونے اور دائرۂ اثر میں آنے والے انسانوں کی اسوۂ حسنہ کی روشنی اور تعلیماتِ کتاب و سنت سے تعلیم و تربیت اور تزکیۂ نفوس کا فریضہ انجام دیا اور قیام دین اور نظام صلوٰۃ کے لئے انسانی ذہنوں کو جلا بخشنے اور دلوں میں نیکی کی آبیاری کی۔

حضرت ادبؔ گلشن آبادی ؒ کی پیدائش غیر منقسم ہندوستان کے صوبہ مدھیہ پردیش کے ایک معروف ریاستی شہر جاؤرہ (گلشن آباد) کے ایک دینی اور علمی و عملی گھرانے میں وقت کے معروف نقشبندی صوفی بزرگ، ولی کامل حضرت خواجہ حافظ غلام حیدر شاہ نقشبندی ؒ کے ہاں ہوئی۔ 

حضرت ادبؔ گلشن آبادی ؒ کی بنیادی دینی دنیاوی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اس کے بعد جاؤرہ ہی سے اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ آپ کسی کالج یونیورسٹی کے سند یافتہ نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود اپنی ذات میں ایک مکمل درس گاہ اور یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ 

آپ کو قدیم و جدید متداول علوم منطق ، فلسفہ ،طب، تاریخ و سوانح، ادیان و مذاہب، شعر و ادب ، لسانیات ،صرف و نجو، عربی، اردو، فارسی ، ہندی اور انگریزی زبانوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ آپ ایک جید عالمِ دین ، بے مثل خطیب و شعلہ بیان مقرر، مستند طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ’’راہِ سلوک و تصوف ‘‘ کے ایک پاس دار شریعت متبع سنت، صاحبِ طریقت صوفی بزرگ تھے۔ آپ کی پوری زندگی سلوک و تصوف کی بنیادی تعلیم ’’کم سخن ،کم گفتن، کم خفتن، و کم خوردن ‘‘کے نبوی ارشاد کا عملی نمونہ تھی۔

حضرت ادبؔ گلشن آبادیؒ اپنی زندگی کے روز و شب میں ہر ہر قدم ہی نہیں ہر ہر نفس میں قرآن و سنت کے پا بندو شیدائی تھے۔ آپ کا ہر وہ سانس جو اندر جاتا اور ہر وہ سانس جو باہر آتاذکر الہٰی کا مذکر ہوتا۔

آپؒ کی زندگی کا نمایاں ترین و صف عشقِ رسالت ﷺ تھا۔ آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ مدحتِ رسول اللہ ﷺ کے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ آپ کی تمام شاعری عشقِ رسولﷺ سے عبارت ہے۔ آپ وصفِ عشقِ رسالت کے حوالے سے سلوک اور طریقت و تصوف کی اصطلاح میں ’’فنا فی الرسول‘‘ کے مقام اعلیٰ سے کامیاب و بامراد گزر کر ’’فنا فی اللہ‘‘ کے درجے پر فائز ہوئے ۔ یہ عشق رسالت ہی کا اعجاز تھا کہ جو آپ کو ایک نظر دیکھ لیتا یا ایک بار آپ کی صحبت سے مستفیض ہو جاتا، وہ آپ کا شیدا اور چاہنے والا ہو جاتا۔ 

حضرت ادبؔ گلشن آبادی ؒ کاراہِ سلوک پر چلنے ، طریقت و تصوف کواختیار کرنے سے مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ انسانوں کی زندگیوں کو رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور اسوۂ حسنہ پر عمل سے آباد کر دیا جائے اور رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے آخری نظام حیات ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کو نافذ و غالب کرنے کی کوشش اور محنت کی جائے۔ آپ کی نعتیہ شاعری اس خواہش و آرزو سے مزّین و منور ہے۔ ایک نعت کے مقطع میں اپنی اسی دلی خواہش و آرزو کو بارگاہ رسالت ﷺ میں بطور استغاثہ پیش کرتے ہوئے یوں مستغیث ہیں کہ ؎

اے جانِ ادبؔ ایمان ادبؔ ہے ایک ہی مقصد ایک طلب

آباد ہوں تیرے جلووں سے یہ قلب و نظر کے ویرانے

آپ تعلقات میں بڑے وضع دار تھے جس سے جو تعلق تھا، حاضر و غائب یکساں تھا، جو وضع داری اختیار کر لی، زندگی بھر کا دستور بن گئی۔آپ اپنے ملنے والوں، مریدین، معتقدین کے لیے ایک داعیِ دین کے لئے قرآنی تعلیم ’’واخفض جناحک للمومنین‘‘ کا عملی نمونہ تھے، سب سے بے حد محبت و عزت سے پیش آتے اور ہر محبت کرنے والے سے بڑھ کر اس سے محبت کرتے۔ بڑوں کا ادب خود بھی کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے ،بڑوں کی شان میں گستاخی کرنے والا آپ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ شخص تھا۔

بزرگوں کے ادب و احترام کے سلسلے میں آپ’’ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘کے فکر و فلسفے کے حامل تھے۔ غیبت، دل آزاری، طنز و استہزاء ان کے نزدیک گناہ تھا۔ غیبت سے شدید نفرت کرتے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ادبؔ صاحب نے کبھی کسی کی غیبت کی ہو۔

اپنی ذات کے متعلق تذکروں سے شدید بیزاری محسوس کرتے، خود نمائی و خود پسندی نام کو نہ تھی، عاجزی و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، دوسروں کی حوصلہ افزائی میں بڑے وسیع القلب تھے جس میں ذرا بھی کوئی استعداد پاتے، اس کے لئے سراپا شفقت بن جاتے اوران کا خوب حوصلہ بڑھاتے۔

ادبؔ صاحب علمی مقام و مرتبے میں منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ آپ کا مطالعہ نہایت ہی گہرا اور وسیع تھا، آپ نہ صرف ایک صاحب طرز ادیب کہنہ مشق و قادر الکلام شاعر تھے، بلکہ نثر نگاری میں آپ کے خطوط اپنی مثال آپ ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ہنر آپ کی فصاحت، قدرت زبان، مکالمہ نگاری، شعوری تخاطب، آسان بیانی اور استعمال لغت کا شاہکار تھا۔

جملہ اصناف سخن پر مکمل دسترس حاصل تھی، تاہم نعت رسولؐ آپ کا خاص اور پسندیدہ میدان تھا جو محض شاعری سے بڑھ کر اظہار محبت کا ذریعہ تھا، آپ کے دو مجموعہ کلام ’’حریمِ اسریٰ ‘‘اور ’’صحیفۂ ادب‘‘ منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ 

آپ کا قلب حبّ رسولؐ کا مخزن تھا۔ عشق کے تقاضے بھی عجیب ہوتے ہیں، محبت کا رشتہ قائم ہو جائے تو ربط دو طرفہ ہو جاتا ہے۔ بیت اللہ کا طواف اور دربار رسولؐ میں حاضری کا شوق و تڑپ اس حد تک قلبِ ادب میں جاگزیں تھی کہ اسباب ظاہری سے محرومی کے باوجود آپ کو یقین کامل تھا کہ ؎

ہے یہ تو یقین بلوائیں گے وہ روضۂ اقدس پر مجھ کو

ہروقت یہ سوچا کرتا ہوں نادار کا ساماں کیا ہو گا

آپ اپریل 1990ء میں سفر حج پر روانہ ہوئے، طواف کعبہ کے بعد دربار رسول ﷺ میں حاضری اور پابوسی کا شرف حاصل کیا۔ واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے اور فریضۂ حج کی ادائیگی کے دوران منیٰ کے حادثۂ سرنگ میں۱۰ ذی الحج ۱۴۱۰ھ کو واصل بحق ہو کر نہ صرف جاودانی منصب شہادت حاصل کیا، بلکہ وہیں آسودۂ خاک ہو کر اپنی اس دیرینہ حسرت کی تکمیل پائی جس کا اظہار خود آپ نے وقتاً فوقتاً کہے گئے اپنے اشعار میں یوں کیا ؎

ہے وہ خاک عرش وقار جو ہوئی پائمال شہ زمن

وہی خاک کُنج مزار ہو وہی خاک میرا بنے کفن

ادبؔ کاش پوری ہو دل کی یہ حسرت

بنے اپنا مدفن دیارِ مدینہ