• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنوعی طریقے سے سینگ کے نظر نہ آنے یا انتہائی چھوٹا کیے ہوئے جانور کی قربانی کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: آج کل کاروباری حضرات قربانی کے جانوروں (گائے اور بیل) کے سینگوں کو جڑ تک یا نہایت چھوٹے سائز تک اِس طرح بنا دیتے ہیں کہ یا تو سینگ بالکل نظر نہیں آتے یا انتہائی معمولی سائز کے ہوتے ہیں۔

اس سے جانور کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا ہے، قیمت زیادہ ملتی ہے اور اِس سے جانور کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیا ایسے جانوروں کی قربانی جائز ہے ؟،(محمدوسیم ،کراچی )

جواب: حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’رسول اللہﷺ نے چند جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا: اُن میں سے ایک وہ جس کا کان اس حد تک اُکھاڑا گیا ہو کہ اُس کا سوراخ ظاہر ہوگیا ہو اور جس کے سینگ جڑ سے اُکھاڑ دیئے گئے ہوں اور جس کی آنکھ میں بینائی نہ رہے اور جو اس قدر دبلاہو کہ ریوڑ کے ساتھ نہ چل سکے اور جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہو، (سُنن ابو داؤد :2803)‘‘۔اُصولی طور پر قربانی کے جانور کو تمام ظاہری عیوب سے سلامت ہوناچاہیے۔

علامہ غلام رسول سعیدی ؒ لکھتے ہیں:’’ مشائخ نے یہ قاعدہ بیان کیاہے کہ ہر وہ عیب جو کسی منفعت یا جمال کوبالکل ضائع کردے، اُس کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہے، البتہ جو عیب اس سے کم درجے کا ہواس کی وجہ سے قربانی ممنوع نہیں ہے (شرح صحیح مسلم، جلد6،ص:152)‘‘۔

جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا سینگ اوپر سے ٹوٹا ہوا ہے، اُس کی قربانی جائز ہے ۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا اُس کے سینگ کا کچھ حصہ کسی وجہ سے ٹوٹا ہوا ہو، پس اگر ٹوٹ مغز تک پہنچ جائے، تو قربانی جائز نہیں ہے ، بحوالہ ’’قُہستانی‘‘ اور ’’البدائع الصنائع ‘‘ میں ہے: اگر سینگ کی ٹوٹ جڑ تک پہنچ جائے تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے اور جڑ ہڈیوں کے سرے کو کہتے ہیں، جیسے گھٹنے اور کُہنیاں، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد9،ص:391، بیروت)‘‘۔

علامہ عثمان بن علی زیلعی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں، اُس کی قربانی کی جاسکتی ہے، کیونکہ سینگ کے ساتھ مقصود متعلق نہیں ہے اور اسی طرح ٹوٹے ہوئے سینگ والے کی قربانی بھی بہ طریقِ اَولیٰ کی جاسکتی ہے اور وجہ وہی ہے جو ہم نے بتائی ،(تبیین الحقائق، جلد6،ص:5)‘‘۔

علامہ محمد شہاب الدین بزّار کُردری لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جس جانور کے سرے سے سینگ نہیں ہیں، جب اُس کی قربانی جائز ہے، تو جس جانور کے سینگ کاٹ دیئے ہوں یا ٹوٹ گئے ہوں، اُس کی قربانی جائز ہے، البتہ اگر سینگ کی ٹوٹ کا اثر دماغ تک پہنچ گیاہو تو اُس جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، (فتاویٰ بزّازیہ علیٰ ہامش الہندیہ ،جلد6، ص:293) ‘‘ ۔

امام احمد رضاقادری سے سوال ہوا:’’ایک بکری عقیقے کے لئے خریدی، اُس کا سینگ ٹوٹ گیا ،اب دوبارہ پھر نکل آیا ، یہ بکری قابلِ قربانی ہے یا نہیں؟، آپ نے جواب میں لکھا :’’سینگ ٹوٹنا اُس وقت قربانی سے مانع ہوتا ہے جبکہ سر کے اندر جڑ تک ٹوٹے، اگر صرف اوپر کا حصہ ٹوٹ جائے، تو مانع نہیں، پھر اگر اس قدر ٹوٹا تھا کہ مانع ہوتا، مگر بعد میں زخم بھرگیا اور عیب جاتا رہا، تو اب اُس کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ مانع زائل ہوچکا ہے۔

مزید لکھتے ہیں :’’ قرن اوپر ہی کے حصے کو کہتے ہیں، جو ظاہر ہوتا ہے، وہ اگر کُل ٹوٹ گیا، حرج نہیں ولہٰذا ’’ہدایہ‘‘ میں مکسورہ القرن کو جائز فرمایا، ہاں ! اگر اندر سے اس کی جڑ نکل گئی کہ سر میں جگہ خالی ہوگئی ،تو ناجائز ہے، (فتاویٰ رضویہ ،جلد20، ص:460،488)‘‘۔

علامہ نوراللہ بصیر پوری لکھتے ہیں: ’’ روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ قرنِ داخل نصف سے زائد بھی کٹ جائے، تب بھی کٹاؤ دماغ تک نہیں پہنچتا، البتہ اگر جڑ سے اُکھڑ جائے، چونکہ جڑ اور کھوپڑی کی اوپر کی ہڈی کا پیدائشی طور پر اِتّصال ہے، لہٰذا وہ کٹاؤ دماغ تک پہنچ سکتا ہے، جو حقیقۃً اِنقِلاعُ القرن یا اِستِیصَال ُ القَرن ہے اور ایسے جانور کو مُستأصلہ کہا جاتا ہے، جس کی ممانعت حدیث مرفوع ومسند میں آئی ہے، جس کی تصحیح حاکم نے فرمائی ہے، قَرَّرَہُ الذَّہبِیُّ نَصّاً وَسَکَتَ عَلَیہِ أَبُو دَاوٗدُ ۔

مزید لکھتے ہیں:’’روزِ روشن کی طرح واضح ہوچکا ہے کہ جب قرنِ داخل کا ٹوٹ جانا قربانی کے جواز کے لیے مانع نہیں ہے، تو صرف اُس کے بالائی حصے کا ٹوٹ جانا کیسے مانع ہو سکتا ہے اور وہ کُہنیوں، شانوں اور گھٹنوں کی ہڈیوں کی طرح بھی نہیں ہے اور ایسا نرم بھی نہیں ہے کہ چبانے اور کھانے کے قابل ہو، لہٰذا وہ مراد نہیں۔ 

البتہ قرنِ داخل کا زیریں حصہ جو اس کی جڑ ہے اور کھوپڑی میں پیوست ہے، مراد ہوسکتا ہے کہ وہ بھی رأس بمعنی طرف کے ہے اور وہی جڑ کھوپڑی کے لئے بمنزلہ رأس ہے، کیونکہ کھوپڑی کا وہ حصہ جو قرن کے ساتھ مشترک ہے، دائرہ نماخلا ہوتا ہے، کھوپڑی کی ہڈی ہر طرف سے وہیں آکر ختم ہوجاتی ہے اور اس کا ٹوٹنا سَر کی ہڈی کا ٹوٹنا ہے، جس سے ٹوٹ دماغ تک پہنچ جاتی ہے اور وہی صورت پیدا ہوجاتی ہے جس کا ذکر ’’عون المعبود ‘‘میں گذرا اور اس کا مانع ہونا بھی اس لئے نہیں کہ وہ وہ سینگ کا ٹوٹ جانا ہے، بلکہ اس لئے کہ یہ سینگ کا جڑ سے اُکھڑ جانا اور سر کا زخمی ہوناہے، جو ایسا مرض ہے کہ مہلک بن سکتا ہے اور دردِ شدید کے باعث مقصود کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔پس فقہائے کرام کی وہ عبارات جن میں مغز یا دماغ یا جڑ تک ٹوٹ کے پہنچنے کا ذکر ہے ،سب کے معنیٰ ایک ہوگئے‘‘۔

آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’البتہ اس میں شک نہیں کہ سینگ کا ٹوٹنا معمولی عیب ہے، تو جس طرح جانور کا اس قسم کے دوسرے چھوٹے عیبوں سے خالی ہونا مستحب ہے، اِسی طرح اس سے خالی ہونا بھی مستحب ہے، شامی جلد۵،ص :۲۸۲میں ہے :وَاعْلَمْ اَنَّ الْکُلَّ لَایَخْلُو عَن عَیْبٍ وَالْمُسْتَحَبّ أَنْ یَّکُونَ سَلِیْمًا عَنِ الْعُیُوبِ الظَّاہِرَ ۃفَمَا جُوِّزَ ھٰھُنَا،جُوِّز مَعَ الْکَرَاہَۃِ،(فتاویٰ نوریہ، جلد3،ص:371تا380)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ آج کل نہایت صفائی سے سینگ کی افزائش کو روک دیا جاتا ہے یا اتنے چھوٹے سائز تک محدود رکھا جاتا ہے، کہ وہ جانور تاجروں اور خریداروں کے نزدیک جمال والا اور بے عیب سمجھاجاتا ہے، اُس کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے اور اُس سے کوئی منفعت بھی زائل نہیں ہوتی، نہ یہ مقصود میں حارج ہوتاہے، لہٰذا ایسے جانور کی قربانی کسی کراہت کے بغیر جائز ہے اور قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے افضل ہے۔

حدیث پاک میں جو ’’المُسْتَأصِلَہ‘‘ جانور کی قربانی کے عدمِ جواز کی بابت فرمایا گیا، اس سے وہ جانور مراد ہے، جس کے سینگوں کو کھوپڑی اور دماغ کے ساتھ مقامِ اِتّصال سے اُکھیڑ دیا گیا ہو، اِس کا اثر یقینا دماغ تک پہنچ سکتا ہے اور ظاہری جمال متأثر ہویا نہ ہو، جانور کی جسمانی اور دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے اور یہ مقصود میں حرج کا باعث ہے۔

لیکن جس جانورکی بابت پوچھا گیا ہے، اُس پر ’’اَلْمُسْتَأصِلَہ‘‘کا اِطلاق نہیں ہوتا۔ یہ خَصّی جانور کی مانند ہے، جس کے کپورے اگرچہ نکال دیئے جاتے ہیں، لیکن نہ اُس کا جمال متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ عیب دار شمار ہوتا ہے، بلکہ خریدار اُسے زیادہ پسند کرتے ہیں اور قیمت بھی نسبتاً زیادہ لگائی جاتی ہے، کیونکہ بعض صورتوں میں اَنڈوے جانوروں میں کراہت کے کچھ اور اسباب پیداہوجاتے ہیں۔

نَر جانور کا خَصّی ہونا گوشت خوری کے لیے اور قربانی کے لیے عیب نہیں ہے بلکہ بوجوہ ایک درجہ فضیلت کا سبب بنتا ہے۔ نَر جانور کا اَنڈوا ہونا صرف اُن لوگوں کے لیے قابلِ ترجیح ہے، جو اسے اپنے ریوڑ میں جانوروں کی افزائشِ نسل کے لیے خریدتے یا پالتے ہیں۔