دنیا کے ہر گوشے میں، ہر زبان اور ہر تہذیب میں اگر کسی چیز کو سب سے زیادہ قیمتی مانا گیا ہے تو وہ ہیں بچے۔ اُن کی ہنسی میں زندگی کی تازگی چھپی ہے، اُن کی آنکھوں میں مستقبل کی روشنی چمکتی ہے۔ ان کی معصوم شرارتیں ، بے ساختگی، شوخ و چنچل ادائیں، اور ان کی سچائیاں سب سے قیمتی متاع اور قوم کا اصل سرمایہ اور مستقبل ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی قوم اُسی وقت ترقی کی منازل طے کرتی ہے جب اُس کے بچے مثبت سوچ، تعلیم، محنت اور خدمت کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں۔
آج کے یہ معصوم بچے کل کے سائنسدان، استاد، فوجی، ڈاکٹر، کھلاڑی اور لیڈربنیں گے۔ ان کی آنکھوں میں خواب اور ذہنوں میں تخلیقی قوت چھپی ہوئی ہے، لیکن سب سے بڑی سچائی تویہ ہے کہ ہمارا معاشرہ مختلف طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ کہیں دولت اور آسائشوں کی فراوانی ہے تو کہیں بھوک، افلاس۔ اس طبقاتی تقسیم کا سب سے نمایاں اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ بچے چاہے امیر کے ہوں یا غریب کے، ان کے خواب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بچپن کی معصومیت کسی طبقے یا دولت کی محتاج نہیں ہوتی۔ فرق صرف مواقع اور سہولتوں کا ہوتا ہے۔
2025 کا سال معصوم کلیوں کے لیے ایک اندوہناک خواب کی مانند گزرا۔پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کے مسائل ایک نہیں بلکہ کئی پرتوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ غربت کا خوف، بیماریوں کی مار، گھریلو تشدد،ا سکول سے دوری، کام کی مشقت، معاشرتی تفریق اور تحفظ کا فقدان، انہیں بہت سے محرومیوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔
ننھے فرشتے، جو کھیل کے میدانوں میں قہقہے بکھیرتے، اسکولوں میں علم کی روشنی حاصل کرتے اور گھروں کو رونق بخشتے ہیں، وہ حادثات، ناانصافیوں، دہشت گردی اور والدین کے جھگڑوں کی نذر ہوگئے۔ کہیں کھلا مین ہول کسی بچے کو نگل گیا، کہیں پرانی عمارت معصوموں پر ملبہ بن کر گری،کہیں ماں باپ کے ذاتی تنازعات میں ننھے وجودوں کی زندگیاں بجھ گئیں۔ کسی ماں کی گود اجڑ گئی، کسی باپ کا خواب ٹوٹ کر بکھر گیا۔
یہ واقعات محض خبروں کی سرخیاں نہیں تھے، بلکہ انسانیت کے دل پر لگنے والے وہ زخم ہیں جو کبھی مندمل نہیں ہوں گے۔ بچے کی چھوٹی سی انگلی پکڑ کر جب ہم اُسے چلنا سکھاتے ہیں، تو دراصل ہم اپنی تہذیب، اپنی سوچ اگلی نسل کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ یہی نازک عمر سب سے زیادہ بے توجہی، دباؤ کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
کبھی بچے تتلیاں پکڑنے کے خواب دیکھتے تھے، آج وہ موبائل کی اسکرینوں میں گم ہو چکے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے مستقبل کو محفوظ کر رہے ہیں یا تباہ؟ خصوصاً فی زمانہ ہمارے معاشرے میں جس طرح بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے روح فرسا واقعات تواتر سے ہورہے ہیں۔ یہ اَمر نہایت اَفسوس ناک ہے کہ پاکستان میں بچوں کے استحصال اور ان سے لاتعلقی کا عمل جاری ہے۔
سال 2025 معصوم بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی انتہائی تکلیف دہ رہا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی، کمزور قانونی عملداری، اور معاشی مسائل نے ان ننھی جانوں کو مزید غیر محفوظ بنا دیا۔ پورے سال کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ پریشان کن پہلو بچوں کا اغوا، جبری مشقت اور جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات تھے، جو ماں باپ کے دلوں پر مستقل خوف کی پرچھائیاں بنے رہے۔
2025 میں بچوں کے اغوا اور لاپتہ ہونے کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہوا پولیس اورغیر سرکاری تنظیم ساحل کے مشترکہ اعدادوشمار کے مطابق سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے اغوا کے 605 مقدمات درج ہوئے۔ ان میں کراچی کے علاقے گارڈن کے علاقے سےدو بچے علیان اور علی رضا جو ایک ہی محلے کے رہائشی تھے مدرسے سے واپسی پر لاپتہ ہوئے۔ جنوری میں سات سالہ محمدصارم کی گمشدگی نے پورے شہر کو ہلا دیا۔
نارتھ کراچی کے علاقے سے اغوا ہونے والا یہ بچہ دو دن بعد ایک زیرِ زمین پانی کے ٹینک سے مردہ حالت میں ملا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، اسے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ یہ واقعہ کراچی میں بچوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کا پہلا بڑا اشارہ ثابت ہوا۔ جب کوئی بچہ اغوا ہوتا ہے تو والدین کے لیے یہ لمحہ قیامت سے کم نہیں ہوتا۔
ان کے دل میں ایک ایسا زخم چھوڑ جاتا ہے جو زندگی بھر نہیں بھرتا۔اغوا کے واقعات نے والدین کو سب سے زیادہ بے چین رکھا۔ اسکول جاتے ہوئے، کھیلتے ہوئے، گلی میں، یہاں تک کہ گھر کے دروازے پر کھڑے ہونے تک بچوں کی حفاظت کا خطرہ بڑھ گیا۔ بچےجو پہلے آزادانہ کھیلتے تھے، اب محتاط اور ڈرے ڈرے رہنے لگے۔
بچوں کو جہاں دیگر سیکڑوں مسائل اور خطرات کا سامنا ہے، وہیں ایک گمبھیر مسئلہ بچوں کا جنسی استحصال کا بھی ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ وہ زخم ہے جو صرف جسم پر نہیں لگتا بلکہ روح کو بھی چیر دیتا ہے۔
جب سے الیکٹرانک میڈیا نے وسعت اختیار کی ہے، مُلک کے کسی بھی حصّے میں رُونما ہونے والے واقعے کی گونج لمحوں میں سُنائی دینے لگتی ہے۔ شرم ناک اور انسانیت سوز واقعات کی روزانہ سامنے آنے والی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے چہرے پر کتنے بدنما داغ ہیں۔
2025 میں مختلف شہروں سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے، جنہوں نے معاشرے کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ معصوم جو کل تک تتلی کے پیچھے بھاگتے تھے، آج اپنی ہی پرچھائیں سے ڈرنے لگے ہیں۔ درندے بچوں سے ان کی معصومیت اور ان کا بچپن چھین لیتے ہیں۔
غیرسرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2025ء کے پہلےچند مہینوں میں ہی 950 بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں مئی کے مہینے میں دو کم عمر بہنوں کے ساتھ مبینہ زیادتی اور جنسی تشدد کا واقعہ کراچی کے علاقے خواجہ اجمیر نگری پیش آیا۔ لیاقت آباد میں 7 سالہ بچی کی لاش ندی سے ملی، جس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ گزری پی این ٹی کالونی میں 7 سالہ بچی کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بنایا۔ سپر ہائی وے گڈاپ ٹاؤن میں واقع مدرسے سے 13 سالہ لڑکے کی تشدد زدہ لاش ملی، جسے جنسی درندوں نے زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کر دیا۔
ملیر سٹی میں اسکول کی طالبہ سے مبینہ اجتماعی جنسی زیادتی کا مقدمہ متاثرہ لڑکی کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔ سول اسپتال کے آپریشن تھیٹر کمپلیکس کی لفٹ میں 14 سالہ بچے کولفٹ آپریٹر نے لفٹ کے اندر ہی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔
بچوں سے زیادتی کے واقعات نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں ایک اذیت ناک رجحان بن چکے ہیں۔ سات سالہ معصوم سعد8 ستمبر2025 کو لانڈھی کے علاقے سےلاپتہ ہوا وہ اس کےا سکول کا پہلا دن تھا۔ا سکول سے واپس آیا ٹیوشن گیا چھٹی کے بعد اپنی والدہ سے پیسے لے کر گھر سے نکلا لیکن واپس نہیں آیا ماں باپ رشتہ دار محلہ دار پولیس بچے کو ڈھونڈتے رہے 5 روز بعدکچھ لوگوں کی نشاندہی پر گھر سے 2 گلیاں دور ایک کچرے کے ڈمپر میں بچے کا بے جان جسم ملاوالدین بچے کی حالت دیکھ کر چیخ و پکار کرنے لگے پولیس نے جب جان لینے والوں کا سراغ لگایاتودو بے شرم محلہ دار نکلے یہ 5 دن سے ساتھ مل کر سعد کو ڈھونڈتے رہے ماں باپ ایک طرف ان کی مدد کرنے پر شکریہ ادا کرتے رہے لیکن اُنہیں کیا پتا تھا سعد کے قا تل ان ساتھ ہیں۔
اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے بچے کی جان لے لی۔ ماہِ ستمبر میں کراچی کے علاقے قیوم آباد میں ایک درنہ شبیر احمد کو گرفتار کیا گیا جوگذشہ دس سال سے 100 سے زائد کمسن بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی نشانہ بنا رہا تھا، نہ صرف یہ ،وہ اپنے موبائل فون سے ان کی ویڈیوز بھی بناتا تھا۔
پولیس نے ملزم شبیر کوجوشربت فروش تھا، اس کے قبضے سے ایک موبائل فون اور یو ایس بی برآمد کی، جس میں 8 سے 12 سال کی عمر کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی سیکڑوں ویڈیوز موجود تھیں۔
جبری مشقت بھی 2025 میں معصوم بچوں کے لیے ایک گہرا زخم ثابت ہوئی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے والدین بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے ہوٹلوں، ورکشاپوں، چائے کے ڈھابوں اور چوراہوں پر مزدوری کرانے پر مجبور ہوگئے جب ہم کل کے مستقبل کو چائے کی دکانوں، ڈھابوں میں کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، جہاں پر ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو شرمسار ہوجاتے ہیں۔ کسی نے درست کہا ’’یہ جو ڈھابوں، دکانوں، ورکشاپوں اور بھٹوں پر کام کرنے والے چھوٹے ہوتے ہیں نا، یہ دراصل اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں‘‘۔
نازک پھول صحت پر مضر اثر مرتب کرنے والے کارخانوں میں رگڑائی کٹائی جیسے مشکل کام سرانجام دیتے ہیں اور دیگر ناہموار محنت کشی کا ذمہ بچے کے نوعمر جسد پرڈال دیا جاتا ہے اور ماں باپ کی کفالت حالات کی تنگی جیسی سوچ بچے کو چپ چاپ کام کرنے ظلم سہنے کا عادی بنادیتی ہے۔
اشرافیہ اور متوسط طبقے میں میڈ رکھنے کا ایک فیشن ہے‘ جس میں غریب چھوٹی بچیوں کو ان کے ہی ہم عمر امیر بچوں کی دیکھ بھال کےلئے رکھا جاتا ہے۔ یوں ان کو طبقاتی تفریق کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ننھے منے ہاتھوں سے یہ بچے برتن دھوتے ہیں ‘اگر کوئی برتن ان کے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹ جائے تو ان کی پٹائی کی جاتی ہے اور ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔
ہزاروں بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، چہرے پر بھوک اور پیاس کی شدت لیے بڑی بڑی گاڑیوں کے پیچھے غبارے لیئے، گجرے اٹھائے، چھوٹی موٹی چیزیں لیئے بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں، ٹریفک کے بے پناہ رواں دواں ہجوم کے بیچوں بیچ چار پیسے کمانے کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگائے پھرتے ہیں۔ صرف وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں ’’چھوٹے‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔
وہ سب معصوم سے چہرے تلاش رزق میں گم ہیں
جنہیں تتلی پکڑنا تھی، جنہیں باغوں میں ہونا تھا
چائلڈ لیبر کے پیچھے غربت، ناخواندگی اور سماجی عدم مساوات جیسے عوامل کار فرما ہیں۔ پاکستان، دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں بچوں کی مزدوری ایک عام مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
سندھ چائلڈ لیبر سروے کی رپورٹ 2022- 2024، جو 28سالوں میں پہلا سروے تھا، جس نےصوبے میں 10سے 17سال کی عمر کے بچوں کی محنت کی ایک سنگین تصویر پیش کی تھی، جس کے مطابق 1996سے 2024تک صوبے میں چائلڈ لیبر میں 50فیصد کمی واقع ہوئی محکمہ محنت سندھ، یونیسف اور بیورو آف سٹیٹکس کے سروے کے مطابق سندھ میں اب بھی 16لاکھ بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چائلڈ لیبر کی شرح 14 فیصد بتائی جاتی ہے۔
چاروں صوبوں میں مشقت کرنے والے بچوں کی شرح کو دیکھا جائے تو پنجاب میں 13 اعشاریہ 4 فیصد، کے پی میں 11 اعشاریہ ایک فیصد، سندھ میں 10 اعشاریہ 3 فیصد اور بلوچستان میں سب سے کم یعنی ساڑھے 3 فیصد ہے۔ بلوچستان کے زیادہ تر بچے مشقت کرنے کے عذاب سے اس لئے محفوظ ہیں کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں وہاں زیادہ تر معاشی سرگرمیاں کم ہیں۔
ملک میں چائلڈ پروٹیکشن کا قانون موجود ہے، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کےتحت چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بھی قائم ہے۔ محکمہ محنت کا کام چائلڈ لیبر کی نشاندہی کرکے انہیں آگاہ کرنا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔
یونیسف ہر سال کے آغاز میں رپورٹ جاری کرتا ہے، جس میں اُس برس بچوں کے لیے ممکنہ خطرات اور انہیں تحفظ دینے کے طریقوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔2025 میں بچوں کے لیے امکانات’’مستقبل کے لیے مستحکم نظام کی تعمیر‘‘کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں قومی سطح پر ایسے نظام مضبوط کرنے کا تقاضا کیا، جن کے ذریعے بچوں پر بحرانوں کے اثرات میں کمی لائی جائے اور انہیں درکار مدد تک ان کی رسائی یقینی ہو۔ رپورٹ کے مطابق، ترقی پذیر ممالک میں حکومتوں کے لیے بچوں پر ضروری سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
سست رو ترقی، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، محصولات سے حاصل ہونے والی ناکافی آمدنی اور ترقیاتی امداد میں کمی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ بھاری حکومتی قرضے بھی اس صورتحال کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس وقت تقریباً 400 ملین بچے ایسے ممالک میں رہتے ہیں، جن پر قرضوں کا شدید دباؤ ہے اور ان کی ادائیگی پر اٹھنے والے اخراجات کے باعث بچوں پر خرچ کی جانے والی رقم میں متواتر کمی ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ بنیادی نوعیت کی اصلاحات کے بغیر غریب ممالک پر یہ بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔ موسمیاتی بحران بچوں کی ترقی، صحت، تعلیم اور بہبود کو غیرمتناسب طور سے متاثر کر رہا ہے اور اس کے اثرات دائمی ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں درج ہے کہ2025 میں متعدد ڈیجیٹل رجحانات دنیا کے مستقبل کی تشکیل کریں گے۔ نئی ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیزتر ترقی تعلیم سےلے کر اطلاعات اور ڈیجیٹل معیشت میں شرکت تک ہر پہلو سے بچوں کی زندگی متشکل کرے گی۔
عالمی سطح پر دس سال قبل پائیدار ترقیاتی اہداف اپناتے ہوئے 2025 تک بچوں کی مزدوری ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، تاہم عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق اس ہدف کا وقت اب ختم ہو چکا ہے لیکن بچوں کی مزدوری نہیں۔ دنیا میں 138 ملین بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ برس تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے باوجود دو کروڑ62لاکھ سے زیادہ بچے بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔ 5 سے 16 سال کے بچوں کے لیے لازم قرار دی گئی ہے لیکن 38 فیصد بچے اسکولوں سے اب بھی باہر ہیں، جس میں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہےجو تعلیمی نظام کے لئے بلا شبہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کے حوالے سے ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جس کی روز ہی کوئی نہ کوئی مثال نظر آتی ہے اور وہ ہے کچرا کنڈیوں سے نومولود بچوں کا ملنا، جنہیں بے رحم لوگ کچرا ہی سمجھ کر پھینک جاتے ہیں، جن میں بہت کم تعداد ایسی ہوتی ہیں جو زندہ بچ پاتی ہیں۔ 2025کے پہلے ماہ میں کراچی کی مختلف کچرا کنڈیوں سے 6نومولود بچوں کی لاشیں ملیں۔ فروری میں سیالکوٹ سے ضلع بھر کے مختلف مقامات سے پانچ نومولود بچیوں کی لاشیں کچرے کے ڈھیر سے ملیں۔کئی بچے ایدھی کے جھولے میں ڈال دیئے گئے۔ اس طرح کے واقعات معاشرے کی سفاکی کو ظاہر کرتے ہیں۔
نومولود بچوں کی اموات کی شرح دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بہت زیادہ رہیں، جس پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اموات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔
ہمارے ملک میں بچوں کو درپیش چیلنجز کی جڑیں غربت اور سماجی تحفظ کی کمی میں تو ضرور پیوست ہیں لیکن دیگر کثیر جہتی ‘ پیچیدہ بنیادی وجوہات اور ادارہ جاتی رکاوٹیں بھی ہیں جو براہ راست بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ صحت اور تعلیم کی ناکافی سہولتیں بڑا مسئلہ ہیں۔ کمیونٹیز بچوں کی اجتماعی صحت کے لیے اپنی وابستگی اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دستیاب وسائل کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوتیں۔
2025 میں غذائی قلت اور غربت کی بلند شرح بچوں کی بقاء اور فلاح و بہبود کے لیے خطرہ بنی رہیں۔ معذور بچے سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ گروہوں میں سے ایک تھے۔ خوراک کے عالمی ادارے (WFP)کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 66 فیصد آبادی کو غذائیت سے بھرپور خوراک مہیا ہی نہیں ہوئی۔
پانچ سال سے کم عمر بچوں میں چالیس فیصد سے زائد غذائی قلت کا شکار رہیں۔آغا خان یونیورسٹی کی ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ، کراچی کے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم 3 سے 8 سال کی عمر کے ہر چار میں سے ایک بچہ نشوونما میں تاخیر کے خطرے سے دوچارہے۔
یونیسف کی فلیگ شپ رپورٹ، اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2025،کے مطابق کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں 400بلین بچے نہ صرف صحت اور نشوونما بلکہ صاف پانی، صفائی، صحت، خوراک سے محروم ہیں۔
بچوں پر ظلم کی وجہ صرف غربت، کمزور قوانین یا والدین کی غلطیوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ معاشرتی بے حسی بھی بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ لوگ اکثر دیکھتے ہیں کہ کسی گھر میں بچے کو مارا جا رہا ہے، کسی بچے کے جسم پر تشدد کے نشان ہیں، کوئی بچہ خوفزدہ ہے، مگر وہ خاموش رہتے ہیں۔ یہ خاموشی ظلم کو طاقت دیتی ہے۔
پنجاب میں2025 کی پہلی ششماہی کے دوران بچوں کے خلاف چار ہزارسے زائد تشدد کے واقعات سسٹینیبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی فیکٹ شیٹ میں ظاہر کیے گئے۔ ایسے بچے بڑے ہو کر اعتماد کھو دیتے ہیں، ڈرپوک ہو جاتے ہیں، یا ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔
ان واقعات کے پیچھے وجہ جو بھی ہو، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ تشدد کا شکار ہونے والے بچے بڑے ہو کر معاشرے کے لئے مفید شہری بن سکیں گے یا اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے رد عمل کے طور پر مجرم بن کر سب سے انتقام لیں گے۔
ایسے ظالمانہ واقعات پر کب تک قانون خاموش رہے گا؟ کب اس ملک میں بچوں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے گا؟ کب ایسا قانون بنایا جائے گا کہ دیگر ممالک کی طرح بچے تشدد سے بچنے یا تشدد کے بعد ایک فون کال کر کے قانون کے محافظوں کو مدد کے لئے بلا سکیں، آخرکب تک ہم ایسی وڈیوز دیکھ کر بے بسی سے کڑھتے رہیں گے؟ کب تک مجرموں کو چند ٹکے رشوت کے لے کر چھوڑ دیا جاتا رہے گا؟کب تک وطنِ عزیز میں قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہو گی؟
2025میں ایسے لرزہ خیز واقعات بھی سامنے آئے جہاں ماں نے اپنی ہی اولاد کی جان لےلی۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی خیابان مجاہد میں 14 اگست 2025 کو ادیبہ نامی خاتون نے اپنے دو بچوں، 7 سالہ بیٹے ضرار اور 4 سالہ بیٹی سمیعہ کو تیز دھار آلے سے گلے کاٹ کر قتل کر دیا۔
اس واقعہ نےہر ایک کو جھنجھوڑ دیا۔ والدین میں علیحدگی ہوگئ تھی اور عدالت نے بچوں کی حوالگی والد کو دی تھی، تاہم ماں کو ملاقات کی اجازت تھی۔ بدوقوعہ کے دن بچے اپنی والدہ کے ساتھ تھے جہاں یہ لرزہ خیز واردات ہوئی۔ ابھی ایک واقعہ سے دل کے زخم بھرے نہیں کہ دوسرا سامنے آگیا، اورنگی ٹاؤن کے رہائشی اورنگزیب عالم نامی شخص نے نے اپنے دو کمسن بچوں سمیت سمندر میں چھلانگ لگا دی، موقع پر موجود لوگوں نے انھیں بچانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ وجہ میاں بیوی میں علیحدگی اور بچوں کی کسٹڈی کا تھا۔ ایسے واقعات میں اب دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں بچوں کا کیا قصور ہے،انہیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے۔
شہر میں مین ہول کے کھلے ڈھکن کسی نہ کسی بچے کی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اب تک ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جو چند لمحوں میں ایک خاندان کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ سال کے آخری مہینے میں پیش آیا، تین سالہ بچّہ ابراہیم، اپنے والدین کے ساتھ ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے خریداری کر کے باہر آیا، بچہ ہاتھ چھڑا کر آگے بھاگا اور کُھلے مین ہول میں جاگرا اور جاں بر نہ ہوسکا۔ یہ ایک خبر نہیں، بلکہ سماجی بے حسی، انتظامی غفلت کا ثبوت ہیں۔
آج کا بچہ جب دنیا میں تشریف لاتا ہے تو ایک رنگ برنگ گلوبل ولیج ان کا استقبال کرتا ہے۔ وہ لوریوں اور تھپکیوں کے بغیر بڑا ہوگا تو انسیت، ادب اور احترام کہاں سے سیکھے گا؟ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے انٹرنیٹ کی دنیا سے اس کی ڈیمانڈز بڑھتی جاتی ہے اور اس کو وہاں دیکھنے کے لیے وہ سب کچھ دستیاب ہوتا ہے جو اس کےلیے اس عمر میں زہر قاتل ہے۔ آج کل کے گھرانوں میں نہ والد کی چلتی ہے اور نہ والدہ کی۔ چلتی ہے تو صرف اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی۔
بچوں کو بہلانےکےلئے، انہیں مصروف رکھنے، رونا بند کرنے یا کھانا کھلانےکےلئے اسمارٹ فون دے دیا جاتا ہے۔اسکرین پر زیادہ دیر تک مصروف رہنے کی وجہ سے بچوں کو مختلف اقسام کی بیماریاں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں، جس میں بچوں کا ’’اسکرین وژن سنڈروم‘‘ میں مبتلا ہونا، بچوں کی آنکھوں میں جلن، آنکھوں کا خشک ہوجانا، بینائی کا کمزور ہونا، چکر آنا، سردرد اور تھکان کا ہونا، معصوم بچوں کا مسلسل اضطرابی کیفیت و بے چینی کے عالم میں رہنا، گردن میں درد، ہاتھوں میں بھی درد، ریڑھ کی ہڈی کا درد کے ساتھ جھک جانا، بچوں کا موٹاپے کا شکار ہونا،ear devicesکے استعمال سے بچوں کے کانوں سماعت بھی داؤ پر لگ گئی ہیں۔ اب تو چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کا اسکرین ٹائم کے زیادہ استعمال کے نتیجہ میں خون کے دباؤ میں شدید اضافہ ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنی میٹا (Meta) نے اعلان کیا ہے کہ وہ 4 دسمبر 2025 سے آسٹریلیا میں 16سال سے کم عمر صارفین کو فیس بک، انسٹاگرام اور تھریڈز سے ہٹا دے گی۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ اقدام آسٹریلوی حکومت کے اُن نئے قوانین کے تحت کیا جا رہا ہے، جس کے مطابق 10 دسمبر2025 کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 16 سال سے کم عمر بچوں کا استعمال مکمل طور پر ممنوع ہوگا اور خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے۔
ملائیشیا نے آئندہ سال یعنی 2026میں16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر مواصلات( ملا ئشیا) فہمی فاضل نے کہا کہ،’’ 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی یکم جنوری سے نافذ العمل ہوگی۔‘‘
دیکھتے ہیں اس سلسلے میں ہماری حکومت کیا اقدامات کرتی ہے۔
جیسا سماج ہمارے بچوں کو ملنا چاہیے اس کی ہم صرف باتیں کرتے ہیں اسے حقیقی شکل دینے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے معاشرے کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی ہوں گی۔
اگر ہم واقعی ایک بہتر معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں بچوں کو محبت، عزت، تعلیم، حفاظت اور ایک محفوظ ماحول فراہم کرنا ہو گا۔ بہ صورت دیگر آنے والا وقت نہ صرف خوفناک ہوگا بلکہ ہماری ناکامی کی داستان بھی لکھے گا۔