• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ہماری سیاسی تاریخ کوئی بہت پیچیدہ نہیں، نہ قدیم کہ فہم کے ہاتھ سِرا نہ لگے اور سچائی تک رسائی نہ ہو۔ المیہ یہ ہے کہ تاریخ سمجھنے سمجھانے والوں نے کبھی تردُد ہی نہیں کیا ورنہ زیادہ باریک بینی کی ضرورت ہی کب ہے۔ ادراک کیلئے محض مطالعہ یا تعصب سے پاک مرشد درکار ہے۔ وہ الگ بات ہے تہذیب سے عاری معاشروں میں بے معنی پیچیدگی کو گھسیڑ دیا جاتا ہےاور سیدھی بات کو شہر بدر، کہ آبادیاں اشرافیہ کیلئے بالا خانہ رہیں اور عام آدمی کیلئے جنگل۔ پھر اشرافیہ ایسی تحقیق و تعلیم اور تمیز کو رواج بخشےکہ عام آدمی کے غلامانہ اذہان کو کبھی احساس آزادی ہی نہ ہو۔ پچاس لاکھ آدمی ہیں جو تیئس کروڑ کو ایاز بنانے اور اپنی اگلی صفوںمحمود کو محفوظ رکھنے میں شبانہ روز کوشاں ہیں۔  کیسے ہو ان صف بندیوں کا توڑ کہ اور کوئی بانی تحریکِ انصاف یا بلاول بھٹو و مریم نواز ماضی والی کوڑھ کی کاشت والے سیاستدان نہ ہوں؟

درد محض اتنا نہیں کہ اگلی صفوں پر قابض پچاس لاکھ اور انکے پچاس لاکھ محافظ سرگرم عمل ہیں ۔ ستم یہ بھی ہے کہ یہ طرز اور فیشن  بیوروکریسی ، عدالتوں ، قوت در قوت اداروں ، بِن قبلہ پنپتی یونیورسٹیوں میں بھی سرایت کر چکا ہے اور یوں اگلی صف پچھلوں کو جینے دیتی ہے نہ مرنے۔ جن اقوام سے ان کی سوشل سائنسز اور زبانیں چھین لی جائیں اور اوپر  سے کان بھرتے رہیں کہ دنیا گلوبل ولیج بن گئی، تم بھی گلوبل ہو جاؤ تو اس سے بڑا تہذیب و تمدن سے مذاق کیا ہوگا۔ اپنے کلچر کے بغیر نشوونما نہیں ہوتی ۔ معاشرہ بونا ہو جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن میں سر نکالنا ہے تو نارمل نشوونما ہونی چاہئے ، اپنی زمین میں جڑیں ہوں گی تو عالم کو ثمربار نظر آئیں گے، تب جاکر ارتقاء کا بقائے دائمی ہو گا۔ ایسے ہی ارتقاء کا انتخابِ طبیعی ممکن ہے، اور یونہی نَبَرد بقا بھی۔

 تحقیق کی شاہراہ پر دو قدم چلیں تو مسلم لیگ نواز کی، ایک قدم کی مسافت پر تحریک انصاف اور تین قدم چلنے پر پیپلز پارٹی کی تواریخ موجود ہیں ۔ تحریک پاکستان والی مسلم لیگ کو کھنگالنے کیلئے چار قدم کی مسافت ہے۔ اسی راستے پر یونینسٹ کا کچا چٹھا ، کنونشن لیگ اور قاف لیگ کا سُپرفِیشل اور آرٹیفیشل تا راز مل جائے گا۔ نہایت سادہ سی تاریخ ہے ن لیگ کی کہ اسے ضیائی مارکیٹ نے لانچ کیا اور یہ بات اَسی کی دہائی کی ہے ، اسی طرح انصاف کو دوام بخشنے کی پہلی کاوش جنابِ مشرف کی تھی جو بات نہ بنی تاہم پچھلی دہائی تک اس میں اسٹیبلشمنٹ نے روح پھونک دی۔ پیپلز پارٹی 1967 میں ایوبی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تشکیل پائی 3سال بعد اقتدار میں آگئی۔ پیپلزپارٹی کی واحد تاریخ ہے جس سے ملتا ہے کہ پہلا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو (1970) کا اور دوسرا اقتدار 1988والا بے نظیر بھٹو کا جو اسٹیبلشمنٹ کے منہ سے چھینے گئے یہ نون اور پی ٹی آئی کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ 2008والا زرداری اقتدار تدبر اور بےنظیر شہادت سے ملا طشتری میں نہیں جیسے 1990اور 1997، 2013 اور 2024میں ن لیگ کو ملے یا 2018 میں تحریک انصاف کو...تاریخ کا طالب علم اس کا خود موازنہ کر لے!

’’اب بلاول آخری جمہوری امید ؟‘‘ کالم کو جب 9 اگست 2020 کے جنگ میں جگہ ملی تو کچھ مہربانوں نے مذاق اڑایا تو کچھ نے نکتہ اٹھایا ، بطور سابق وزیر خارجہ بعد از جنگ ڈپلومیسی میں بلاول امید ہی بنے۔ بہرحال ہم نے عرض کیا تھا : جمہوریت کی طلب کو زندہ رکھنا بھی بہت بڑا کام ہے ورنہ مصلحتوں کی راہ اور اقتدار کی چاہ سچا نعرہ اور پکی سوچ بھی چھین لیتی ہے... اور ، مرشد سے سیکھی بات کہ قبولیت اور مقبولیت کو یکجان بنا کر عنان اقتدار دسترس میں رہتی ہے کو بنیاد بنا کر متعدد بار لکھا تھا کہ خان کو عوام کی پذیرائی کا احسان اتارنا ہے تو نرگسیت کو بالائے طاق اور عوام کو سر آنکھوں پر رکھنا ہوگا ورنہ ساجھے کے اقتدار کی ہنڈیا ہوگی، چوراہا ہوگا اور ٹھاہ کرکےپھوٹنا ہو گا۔ اور یہ سب ہوا۔ ابھی وقت ہے خان اور بلاول کو سیاست کو جمہوری پٹری پر لانا ہوگا مقبولیت اور قبولیت کے فلسفہ کے سنگ۔ کیونکہ تانی بگڑی ہے اوپر سے پاک بھارت جنگ نے جہاں پاکستان کو فتح کی نوید دی وہاں ہیروگری کے نئے تانے بانے بھی بُن دئیے۔ جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ "خان ختم !" یہ بات سرے سے غلط ہے۔ پنجاب میں نون اور جنون کا مقابلہ الیکشن 2024 ہی والا ہے۔ نون کے مقابل فطرتاً کسی نے تو رہنا ہے! پی پی پی یا پی ٹی آئی! جبکہ پیپلز پارٹی میں تاحال دم ہے نہ درود تو پھر کون ہوگا ؟ یقیناً تحریک انصاف ! لہٰذا سوال اٹھانے والے تسلی رکھیں۔ مریم نواز کوئی سیاسی و انتظامی اصلاحات نہیں لا رہیں ، ریڑھی لگانے نہ دی اور ریڑھی دے دی، یونیورسٹیوں کا حق بذریعہ ڈاک دینے کے بجائے جاکر ہاتھوں سے دے دیا محض عکسبندی ہوگئی، خان کا دو چار یونیورسٹیوں میں جانا پاپ تھا اور آج مریم نواز کایونیورسٹیوں سے نکلنا ہی نہ عبادت، بھئی واہ ۔ ایسے ہی ٹیکس بڑھا دیا سہولت دے دی حساب برابر، کسان رُلا دیا تاجر ہنسا دیا، سینئر ن لیگی گھر بٹھا دیا جونئیر اٹھا دیا، مریض ٹھکرا دیا اسپتال چمکا دیا، گیس بجلی کرایہ وہیں پر روٹی سستی کی منادی ، یہ سب میک اپ ہے کوئی عدالتی، بیوروکریٹک اصلاحات نہیں۔ وہ تو شکر کریں جیسی ماضی میں بزدار کی حکومت تھی ویسی پنجاب میں بے سر و پا  اپوزیشن! پس مجموعی جمع تفریق کے بعد پنجاب میں تحریکِ انصاف کو خود مریم نواز زندہ رکھیں گی۔ پنجاب میں بلاول بھٹو نے کب کیا کرنا ہے پیپلز پارٹی سمیت کسی کو معلوم نہیں اور پی پی گورنری کسی مرض کی دوا نہیں! یہ تو لاہور کی حد تک اسلم گِل و عزیز الرحمن چن یا عارف خان ، نصیر احمد ، سہیل ملک سے چار دیوانے ہیں جو جانِ محفل بنے رہتے ہیں۔  دورہ لاہور پر عارف خان جسے عام آدمی کو صدر پاکستان نے " زاویہ زرداری" کے ساتھ سینے سے لگا کر جس عزم کا اظہار کیا ہے اسے بلاول کو دوام بخشنا ہو گا۔ قصہ مختصرخان کو نرگسیت سے اور مریم و بلاول کو زعم سے نکلنا ہوگا تو جمہوریت ہوگی، اور یوں باقی سیاسی "خلیفے" ہوجائیں گے اور یہ تینوں مستقبل!

تازہ ترین