• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعتراف کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کو دھوکا دیا گیا، بیوہ

کراچی (نیوز ڈیسک ) ڈاکٹر عبد القدیر خان کے انتقال کے تقریباً چار سال بعد ان کی بیوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے ذاتی اثرات ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں اور یہ دھوکہ دہی کے زخموں سے بھرے ہیں۔ ہینڈرینا خان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی یقین دہانیوں پر ملک کے پھیلاؤ کے اسکینڈل کے لیے ’’قربانی کا بکرا‘‘ بننا قبول کیا تھا، لیکن وہ وعدے تیزی سے توڑ دیے گئے۔ ”انھوں نے قربانی کا بکرا بننا قبول کر لیا تھا،“ ہینڈرینا نے اپنی پوتی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا جو بعد ازاں ان کے یوٹیوب چینل پر پوسٹ کیا گیا، جس میں انکشاف کیا گیا کہ ان کے مرحوم شوہر کو اس وقت کے صدر نے زبانی یقین دہانیاں کروائی تھیں، جن میں مکمل معافی اور محدود نظر بندی شامل تھی۔ ”لیکن دنوں کے اندر، شرائط بدل گئیں۔“ 28 مئی کو ریاستی سطح پر حال ہی میں منائے جانے والے یوم تکبیر کی تقریب کے بعد پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے میں ڈاکٹر اے کیو خان کے کردار کی اہمیت پر بحث دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ ایک علیحدہ انٹرویو میں ڈاکٹر اے کیو خان کو تقریبات کے دوران نظر انداز کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگرچہ ڈاکٹر اے کیو خان کو ان کی سائنسی خدمات کے لیے عزت دی جاتی ہے، لیکن انہیں قومی ہیرو نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے زور دیا کہ پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کا اصل سہرا سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جاتا ہے، جنہوں نے 1998 میں جوہری تجربات کرنے کا اہم فیصلہ کیا۔ انہوں نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے جوہری پروگرام کے آغاز کا اعتراف بھی کیا، لیکن یہ بھی کہا کہ نواز شریف کی قیادت وہ فیصلہ کن لمحہ تھی جس نے پاکستان کو جوہری قوت بنایا۔ ہینڈرینا کے مطابق وہ بیان دباؤ کے تحت دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں تحفظ اور بحالی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ لیکن تین دن کے اندر، مشرف اپنے وعدے سے مکر گئے۔ ان کے مطابق اس کے بعد کا دور تنہائی اور جذباتی تناؤ کا شکار رہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ان کے بارے میں نہیں تھا - پوری ٹیم کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔اس ہنگامہ خیزی کے باوجود ہینڈرینا نے اپنے مرحوم شوہر کو اپنے حب الوطنی اور مشن کے احساس میں اٹل قرار دیا۔ ’’وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ وہ پاکستان تب ہی واپس آئیں گے جب وہ کچھ بامعنی کر سکیں گے۔ اس عقیدے نے انہیں برقرار رکھا- یہاں تک کہ نظر بندی کے دوران بھی۔‘‘ انہوں نے اس منصوبے کے ان کے خاندان پر پڑنے والے اثرات پر بھی بات کی۔
اہم خبریں سے مزید