• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیدِ قرباں سُنتِ ابراہیمی کی عظیم یادگار

مولانا محمد امجد خان

عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ صاحب استطا عت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے، لہٰذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو بیت اللہ میں حاضر ہو کر حج کریں، لیکن اللہ نے اپنے فضل وکرم اور بے انتہا رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کا موقع عنایت فر ما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہوجائیں، لہٰذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ ام الموَمنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے، وہ فر ماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں کسی کا قربانی کر نے کا اردہ ہو تو قربانی کرنے تک وہ جسم کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک بدن کے کسی بھی حصے کے بال نہ کاٹے، قر بانی کر نے کے بعد ناخن تراشے اور بال کٹوائے۔

عشرہ ذوالحجہ کا تیسرا عمل تکبیر تشریق ہے جو یوم عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کے دن نماز فجر سے شروع ہو کر تیرہ تاریخ کی عصر تک جاری رہتی ہے اور تکبیرات فرض نماز کے بعد ایک مر تبہ پڑھنا واجب ہے، تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہٰ الاّ اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ اس تکبیر کو مردوں کے لیے متوسط بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ 

تکبیرات تشریق مرد، عورت، شہری، دیہاتی، مقیم ومسافر سب پر واجب ہے، البتہ مرد متوسط بلند آواز اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں، اللہ تعالیٰ نے ان ایام کو منتخب فرمایا یعنی حج اور قربانی کہ اللہ تعالیٰ نے ان دو عبادتوں کے لیے وقت مقرر فر ما دیا ہے، ان ایام و اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات وایام میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا، وہ عبادت ہی شمار نہ ہوگی۔ 

لہٰذا امت محمدیہ کے لیے ماہِ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں یعنی صرف ذوالحجہ کی دس، گیارہ، بارہ تاریخ میں اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت کو جاری فرما دیا، قربانی کے عمل اور اپنے خلیل کے طریقے کو اس قدر پسند فر مایا کہ اپنے پیارے حبیب رحمۃ للعالمین ﷺکی زبان مبارک سے اس کی بے انتہا فضیلت جا ری فر ما دی اور انہیں بھی اس امر کے کرنے کا حکم دیا، سو آپ اپنے پرودگار کی نماز پڑھیے اور اس کے نام کی قر بانی کیجیے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا اور قر بانی کا خون زمین پر گر نے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے ،لہٰذا تمہیں چاہیے کہ خوش دلی سے قر بانی کرو۔

ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ ؓسے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطا عت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میں آپ ﷺ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔

حضرت زید بن ارقم ؓسے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ ! ان قر بانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی سنت ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لیے یا رسول اللہﷺ ان قربانیوں میں کیا اجر ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا قربانی کے جانوروں کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے، صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! صوف (اون) کے بارے میں کیا حکم ہے؟آپ ﷺ نے فرمایاکہ اون ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ 

قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں ، بلکہ قر بانی کامقصد جانور کا خون بہانا ہے اور یہ عبادت اسی خاص طریقے سے ادا ہو گی، اور درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت ِجگر کو ذبح کر نے کے لیے زمین پر لٹا دیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حکم الہٰی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے گردن پیش کر دی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فر ما کر دنبے کو فدیہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اس سنت ابراہیمی پر قربانی کا جانور ذبح کر کے ہی عمل ہوسکتا ہے۔

اگر کوئی شخص خود قر بانی نہ کر سکے تو دوسرا اس کی طرف قربانی کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں، ان کی طرف سے بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔