اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی (او سی ایچ اے) کے ترجمان جینز لارکے نے کہا ہے کہ غزہ کی سو فیصد آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ محض ایک جملہ نہیں ۔ یہ کسی قبر پر لکھی وہ عبارت ہے جو زندہ لوگوں کیلئے ہے۔ اس میں درد نہیں، بلکہ درد کا اعتراف ہے — ایک ایسا اعتراف جو دنیا کی بند آنکھوں پر دستک دیتا ہے، مگر دروازہ کوئی نہیں کھولتا۔لارکے نے کہا ہے کہ جو خوراک وہاں پہنچ رہی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے جلتے ہوئے جنگل کو ایک قطرہ پانی دیا جائے، یا زخم پر مرہم نہیں، خاک ڈال دی جائے۔ انہوں نے اسے’’ڈرپ فیڈنگ‘‘ کہا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ فیڈنگ نہیں، فیڈنگ کا مذاق ہے۔ بھوکے بچوں کو امید کی بوندیں دینا، اور پھر ان کے حلق سے اترنے سے پہلے وہ امید چھین لینا ، یہ ظلم کی نئی تعریف ہے۔یہ بیان کوئی اخباری سرخی نہیں بلکہ ایک بے زبان چیخ ہے جس میں چالیس لاکھ خواب دفن ہیں۔یہ قحط نہیں یہ ایک سوچی سمجھی بھوک ہے۔یہ ڈرپ فیڈنگ نہیں ،یہ زندگی کے گلے میں لگی نالی ہے جہاں خوراک کی بوندیں ٹپکتی ہیں جیسے کسی جلتے صحرا میں ایک قاتل کے ہونٹوں پر پانی کا نام ہو۔ غزہ میں اب کوئی رنگ نہیں بچا۔صرف راکھ ہے جس میں بچوں کے نام لکھے گئے ہیں اور وہ نام اب دھوئیں میں بدل چکے ہیں ۔ غزہ میں اب کوئی خوشبو نہیں صرف جلے ہوئے آٹے کی بُو ہے اور ایک ایسی مہک جوپیٹ کے اندر سے اُٹھتی ہے۔
المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا کہ غزہ کے چند داخلی راستے کھولے گئے۔ نو سو ٹرکوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ یہ خبر کسی رخصت ہوتی بارش کی آخری بوند جیسی تھی۔ مگر پھر حقیقت نے پردہ کھینچا۔ صرف چھ سو ٹرک آف لوڈ ہوئے۔ باقی کاغذوں میں رہ گئے، یا دیواروں سے ٹکرا کر گر پڑے۔ جو امداد آئی، وہ تقسیم نہیں ہو سکی۔ آپریشنل رکاوٹیں؟ یا شاید ایک ایسا ارادہ جو چاہتا ہی نہیں کہ بھوک مٹے۔اس سارے المیے پر اقوام متحدہ کے ادارے برائے ہنگامی انسانی امداد کے سربراہ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ کسی خطے کو قحط کی طرف دھکیلنا جنگی جرم ہے، اور اسرائیل یہ جرم کر رہا ہے۔ ان کے الفاظ آسمان پر گرنے والی بجلی کی مانند تھے، مگر زمین خاموش رہی۔ انسانیت کی عدالت میں یہ بیان گونجا، اور پھر گم ہو گیا، جیسے کوئی چیخ کاغذ میں لپیٹ کر سمندر میں پھینک دی گئی ہو۔
ایک بچہ جس کا نام کسی ریت پر لکھا گیا تھا مجھ سے کہتا تھا ’’چاچا، روٹی کی خوشبو کیسی ہوتی ہے۔میں کیا کہتا۔میں نے اُس کی آنکھوں میں وہ سوال دیکھا جو پوری انسانیت سے پوچھا گیا تھااور سب نے چہرہ موڑ لیا‘‘۔غزہ کے گلی کوچے اب خوراک نہیں، سانس کے محتاج ہیں۔ وہاں ہوا بھی بدن کو ڈھانپنے سے کتراتی ہے۔ بچوں کی پسلیاں ایسی ہیں جیسے موسیقی کے تار، جو بجائے ساز بننے کے، بھوک کی اذان دیتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں آنکھوں کا نمک گھل گیا ہے۔ وہ اپنے نومولود کو چھاتی سے لگاتی ہے، مگر دودھ نہیں، خالی آنسو بہتے ہیں۔ اور بچہ، ماں کے چہرے کو نہیں، بھوک کو پہچانتا ہے۔
قحط کا مطلب صرف بھوک نہیں ہوتا۔ قحط ایک اجتماعی یادداشت کی موت ہے۔ جب کوئی کھانا نہ ہونے پر روتا ہے، تو یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔ مگر جب پوری آبادی بھوک سے بلکتی ہے اور دنیا صرف دیکھتی ہے — تو یہ انسانیت کا جنازہ ہے۔ غزہ میں قحط نہیں، انسانوں کی بے حسی کا موسم ہے۔ اور اس موسم کی کوئی انتہا نہیں، کیونکہ ہر روز ایک نئی ماں اپنا بچہ دفناتی ہے، ہر رات ایک اور پیٹ خالی سوتا ہے، اور ہر دن وہی خبریں لاتا ہے جن میں درد چھپا نہیں، بلکہ دکھایا جاتا ہے — ایک تہذیبی تماشا بن کر۔
غزہ میں اب بھوک صرف جسم کا مسئلہ نہیں، یہ روح کا قحط ہے۔ خوابوں کا قحط۔ محبت کا قحط۔ وقت کا قحط۔ وہاں وقت بھی تھم گیا ہے، جیسے لمحے اپنی موت کا انتظار کر رہے ہوں۔ جب کوئی ماں بچے کو سلاتی ہے، تو لوری نہیں گاتی — وہ بھوک کی کہانی سناتی ہے، کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ اور نہیں۔ اور بچہ خواب میں دودھ نہیں، پانی نہیں، صرف مٹی چوستا ہے۔
دنیا نے ہولوکاسٹ کو یاد رکھا، بوسنیا کی چیخیں سنی، روانڈا کے لہو کو پہچانا۔ مگر غزہ؟ وہاں ہر چیخ دبائی جاتی ہے، ہر قبر کو بے نام رکھا جاتا ہے۔ قحط کا آغاز خوراک کے خاتمے سے نہیں ہوتا — یہ انصاف کی موت سے شروع ہوتا ہے۔ اور غزہ میں انصاف سب سے پہلے مرا۔ خوراک تو خیر بعدمیں آتی ہے پہلے انسانی زندگی کی اہمیت ہے اور غزہ کی سرزمین،ہاں کبھی وہ بچوں کی ہنسی سے مہکتی تھی، اب ایسی لوریوں سے خالی ہو چکی ہے جن میں ماں کی ممتا سانس لیتی ہے۔ اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی حملے جس بے دردی سے ہوئےہیں، اُن کی گنتی صرف ہلاکتوں میں نہیں، بلکہ کچلے ہوئے خوابوں، جلے ہوئے اسکول بیگز، اور آنکھوں میں جمے ڈر کی زبان میں کی جاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال، یونیسیف کے مطابق پچاس ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں — پچاس ہزار ننھے ستارے، جو اپنے آنگن کے آسمان میں چمکنے سے پہلے ہی بجھا دیے گئے۔ اور ظلم کی شدت یہ ہے کہ ہر بیس منٹ میں ایک بچہ، صرف اس لیے ہمیشہ کیلئے خاموش ہو جاتا ہے، کہ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ غزہ میں پیدا ہوا۔ یہ اعداد نہیں، یہ عہدِ حاضر کی تاریخ کے ماتھے پر کندہ وہ بدنما داغ ہیں، جنہیں کوئی وقت دھو نہیں سکتا۔