بابا بلھے شاہ نے اپنے وقت کے عالموں، فاضلوں اور حاکموں سے مخاطب ہو کر کہا تھا ’’علموں بس کریں او یار ‘‘ آج کا بابا جھلے شاہ عرف حاجی بغلول، اپنے وقت کے سب سے طاقتور حاکم، سب سے زیادہ ابلاغی سیاست کار اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے سیالکوٹی خواجہ آصف سے ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہے کہ آپ خارجہ امور پر بیان بازی سے پرہیز کریں اپنے بین الاقوامی خیالات اور بیانات کو اپنے تک رکھیں ’’بیانوں بس کریں اویار‘‘۔
خواجہ صاحب کتابیں پڑھنے والی اقلیت میں شامل ہیں غیر معمولی طور پر ذہین ہیں زمانے کی اونچ نیچ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔اقتدار میں ہوں یا زوال میں ان کے رسوخ میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے، جنرل باجوہ سے بھی ان کا مسلسل رابطہ تھا اور اب بھی فوج کی سیاسی سربراہی وزارت دفاع کی صورت میں ان کے پاس موجود ہے وہ ہنرمند اس قدر ہیں کہ ن لیگ پنجاب میں ہار بھی رہی ہو تو وہ اپنے حلقے میں جیت ممکن بنا لیتے ہیں وہ رات گئے جنرل باجو ہ کو جگا کر الیکشن رزلٹ پر بھی توجہ دلا سکتے ہیں غرضیکہ وہ ہر طرح سے کامیاب سیاست دان ہیں جب سے وہ بینکاری چھوڑ کر سیاست کاری میں آئے ہیں انہوں نے نازنین ِسیاست کو اس طرح سے گلے لگایا ہے کہ وہ انکی محبوبہ بن چکی ہے، اس محبوبہ کو انہوں نےبار بار فتح کیا ہے اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اس میدان میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔
خواجہ صاحب فرنٹ فٹ کے جارحانہ کھلاڑی ہیں اگر انہیں کوئی کمزور گیند مل جائے تو وہ دھڑلے سے چھکا مار دیتے ہیں، اپنے سیاسی مخالفوں کو وہ اپنے فقروں سے عریاں کر دینے کے ماہر ہیں۔ پیراکی میں اپنی عمر کے باوجود جس طرح سے وہ بہادری دکھاتے ہیں یہی دیدہ دلیری ان کی سیاست میںبھی صاف نظر آتی ہے ۔
وہ ہر ہنر کے مرد میدان سہی مگر سفارتکاری انکے بس کا کام نہیں جس طرح منکہ مسمی جھلے شاہ کو کبھی عقل کی بات نہیں سوجھتی خواجہ صاحب جب بھی بین الاقوامی امور پر لب کشائی کرتے ہیں، بیرونی دنیا کا کوئی نہ کوئی کنگرا ڈھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ کنگرا تو آخر کیا گرے گا پاکستان کے بارے میں ضرورسوال اٹھتا ہے کہ اس کا ذمہ دار وزیر دفاع آخر کس طرح کے بیانات دے رہا ہے ۔
بین الاقوامی سفارتکاری،سیاست کا ٹی 20 نہیں کہ چوکے اور چھکے لگا کر پویلین واپس لوٹ جائیں یہ ٹیسٹ کرکٹ کا صبرآزما کھیل ہے جس میں ہر لفظ ہر فقرے اور ہر بیان کے معنی نکالے جاتے ہیں۔خواجہ آصف نے حالیہ دنوں میں بالکل غلط وقت پر امریکہ کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیدیاحالانکہ اس وقت امریکہ پاکستان کی بھرپور حمایت کر رہا ہے ۔تاریخ میں پہلی باربھارت کو ناراض کرکے امریکہ نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے ہر بات کہنے کا ایک وقت ہوتاہے یہ بیان تو امریکہ سے خوشگوار تعلقات میںبھی مناسب نہیں تھا یہ اسی طرح ہے کہ شادی میں کوئی بین اور آہ وزاری شروع کر دے۔ ابھی خواجہ صاحب کے اس بیان کے مضمرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ وہ وکٹ سے پھر باہر نکلے اور غیر ذمہ دار کھلاڑی کی طرح بیان دیدیا کہ شملہ معاہدہ ختم ہو چکا اور ہم انڈیا سے 1948ء کی صورتحال پر پہنچ گئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ بھارت سے گزشتہ 75سال میں جو بھی بات طے ہوئی ہے وہ ختم ہو گئی ہے۔ ابھی اس عجیب بیان پر قیاس آرائیاں شروع ہونی تھیں کہ وزارت خارجہ نے فوراً ہی اسکی تردید کر دی یوں پاکستان نے خواجہ صاحب کے حالیہ بیان سے برات کا اعلان کرکے اپنی سرکاری پالیسی بتا دی ۔
محترم خواجہ صاحب کا اصل میدان سیاست ہے وہ اسی میں ڈنکے بجائیں وہ سفارتکاری پر طبع آزمائی نہ کریں، ویسے بھی وفاقی وزیر دفاع کا حساس منصب ان کے پاس ہے دوسرے ممالک کے بارے میں انکے ریمارکس پر ردعمل لازمی آئے گا۔ بہتر ہو گا کہ خواجہ صاحب وزارت دفاع کو کسی اور کے حوالے کرکے وزارت سیاست یا وزارت بیانات لےلیں وہ انکے مزاج کے عین مطابق ہے اور اس سے کوئی پیچیدگی پیدا ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہوگا ۔
خواجہ صاحب کو سیاست اپنے والد خواجہ صفدر سے ورثے میں ملی ہے خواجہ صفدر کونسل مسلم لیگی تھے یعنی وہ ممتاز دولتانہ کی سیاست کے مداح تھے ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل نہ ہو کر اصولوں کی سیاست کی تھی اس زمانے میں کونسل مسلم لیگیوں کو اصول پسند سیاست دان سمجھا جاتا تھا تاہم بعدازاں خواجہ صفدر ،جنرل ضیاء الحق کے ساتھی بن گئے مجلس شوریٰ کے سپیکر بن کر انہوں نے اپنی جمہوری جدوجہد پر پانی پھیردیا ۔خواجہ آصف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی اس سیاسی غلطی کی سرعام پارلیمان میں معافی مانگی۔ خواجہ آصف نے جہاں اپنے والد کی سیاست سے اختلاف کیا وہاں وہ اپنے والد کی شخصیت اور ان کے آہنگ سے بھی قدرے مختلف ہیں۔خواجہ صفدر دھیمے لہجے کے سیاست دان تھے جبکہ خواجہ آصف بلند آہنگ کے سیاست دان ہیں، ان کے فقرے کی کاٹ بہت دورتک جاتی ہے مگر یہ کاٹ اندرون ملک ہی رہے تو بہتر ہے بیرونی دنیا میں یہ کاٹ کہیں ہمارے تعلقات کو ہی نہ کاٹ دے۔
حکمرانوں اور اہل سیاست کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جنگ ہو یا امن، بیرونی دنیا کے بارے میں بیانات اور اپنے خیالات کا بہت سوچ سمجھ کر اظہار کرنا چاہئے ۔ وفاقی وزیر صرف سیاست کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ اسے اندرونی لڑائی کاایک فریق سمجھ کر بیرونی دنیا نظر انداز کر دے، وہ حکومت اور ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے اسکے ہر فقرے کا مطلب نکالا جاتا ہے۔یہ بھی مدنظر رہے کہ سیاست دان بہترین سفارتکار نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر سفارتکار بہترین سیاست دان بن سکتا ہے ان شعبوں کی الگ الگ مہارت ہے اور بہتر ہے کہ انجانے شعبے میں جاکر زور آزمائی نہ کی جائے کیونکہ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے ریاست آزمائش میں پڑ سکتی ہے اور آخرمیں جھلے شاہ عرف حاجی بغلول کا یہ قول خواجہ صاحب کیلئےکہ ’’بیانوں بس کریں اویار‘‘۔