• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران کی آبنائے ہرمز بندش کی دھمکی، دنیا عالمی معاشی بحران کے دہانے پر آگئی

اسلام آباد (قاسم عباسی) ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی کے بعد دنیا ایک عالمی معاشی بحران کے دہانے پر آ گئی ہے۔ یہ پانی کا ایک تنگ راستہ ہے جس کی چوڑائی صرف 33 کلومیٹر ہے اور یہ دنیا کی یومیہ تیل کی سپلائی کا پانچواں حصہ (تقریباً 20 فیصد) یہاں سے گزرتا ہے۔ اگرچہ یہ اسٹریٹیجک آبی گزرگاہ فی الحال کھلی ہوئی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ امریکی حمایت یافتہ اسرائیل کی جانب سے کشیدگی میں اضافہ اس اہم شپنگ روٹ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہو سکتی ہے اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کرنے یا یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں پر حملہ کرنے کا انتخاب کرے۔ 

ماہرین کے مطابق، اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ آئی تو تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی، معیشتیں غیر مستحکم ہو جائیں گی اور ایک نیا توانائی بحران جنم لے سکتا ہے۔ یہ تیل کی گزرگاہ (آبنائے ہرمز) اس لیے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کا کوئی حقیقی متبادل موجود نہیں ہے۔ خلیج کا زیادہ تر تیل بڑے پیمانے پر تاخیر کے بغیر کسی اور راستے سے منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واحد گہرے پانی کا راستہ ہے جو دنیا کے سب سے بڑے خام تیل کے ٹینکرز کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

امریکی توانائی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق آبنائے ہرمز سے روزانہ 20 ملین بیرل تیل گزرتا ہے — جو عالمی کھپت کا 20 فیصد ہے۔ 

اس کے علاوہ، دنیا کی مائع قدرتی گیس کی تجارت کا پانچواں حصہ بھی اسی راستے سے گزرتا ہے، جس کی بڑی مقدار قطر سے آتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کو یہ خدشہ ہے کہ آبنائے ہرمز کی بندش کے باعث تیل کی قیمتوں میں اچانک غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، توانائی کے اخراجات میں اضافہ ہو گا، اور پورے یورپ کی صنعتیں درہم برہم ہو جائیں گی۔ خاص طور پر مینوفیکچرنگ، ٹرانسپورٹ، اور زراعت کے شعبے اس سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ 

یورپی اسٹاک ایکسچینجز میں مارکیٹ کے ردعمل اور غیر یقینی صورتحال اس کے براہ راست اثرات میں شامل ہوں گے۔ مزید برآں، آبنائے ہرمز کی ممکنہ ناکہ بندی امریکہ، یورپی یونین کی بحری افواج اور خلیجی ریاستوں کو شامل کرنے والی فوجی محاذ آرائیوں کو مزید بڑھا سکتی ہے، جس سے ایک وسیع علاقائی جنگ کا خطرہ ہے۔

اہم خبریں سے مزید