• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (نیوز ڈیسک) ٹرمپ یہ جنگ کیسے ہار سکتے ہیں؟جارج ٹاؤن یونیورسٹی، اسکول آف فارن سروس کے پروفیسر ڈینیئل بائمن نے اپنے ایک تحریر میں لکھا ہے کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی بظاہر مثبت لیکن پر خطر معاملہ ہے، ایران کو کمتر نہ سمجھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی حملے محدود تھے، لیکن ایران کیخلاف یہ مہم اب بھی گڑبڑ کا شکار ہو سکتی ہے۔21 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیو جرسی کے موریس ٹاؤن ایئرپورٹ سے روانگی سے قبل ایئر فورس ون میں سوار ہوتے ہوئے مکہ ہیٹ پہنے اور مکا لہراتے ہوئے تصویر بنوائی۔تمام تر تباہی کے باوجود، اب تک اسرائیل کی ایران کے خلاف جنگ میں امریکی مداخلت محدود رہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ امریکا نے ایران بھر میں کئی نیوکلیئر تنصیبات کو نشانہ بنایا، جن میں سب سے اہم ہدف “فوردو” کا زیر زمین مرکز تھا، جہاں ایران کے جوہری پروگرام کے کلیدی اجزاء رکھے جاتے تھےیا شاید رکھے جاتے تھے۔ ٹرمپ نے کہا کہ حملوں کا مقصد ایران کی “جوہری افزودگی کی صلاحیت کا مکمل خاتمہ” تھا۔ یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی دیگر جوہری تنصیبات کی تباہی اور ایرانی فوجی و جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی مہم کے تسلسل میں کیا گیا۔ اگرچہ صدر ٹرمپ ان حملوں کی بظاہر کامیابی پر خوش ہیں، لیکن ضروری ہے کہ ہم پیشگی اندازہ لگائیں اور محتاط رہیں کہ یہ جنگ کس طرح بگڑ سکتی ہے۔ناکامی کے ممکنہ اسباب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ چونکہ اب تک امریکا کا کردار محدود رہا ہے، سب سے پہلا خدشہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے موجودہ حملے ایران کے جوہری پروگرام کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکے کہ اس جنگ کی لاگت، تباہی اور خطرات کو جواز دیا جا سکے۔
اہم خبریں سے مزید