میں جب بھی اپنے دو عظیم ہمسایہ ملکوں چین اور ایران کو دیکھتا ہوں تو رشک کرتا ہوں، دونوں کی ترقی ان راستوں سے ہوئی جو ہم نہیں اپنا سکے۔ پہلے چین کی بات کر لیتے ہیں، چین پچاس ساٹھ سال دنیا کیلئے بند رہا، چینیوں نے دنیا کیلئے دروازے بند رکھے، ہمارے ساتھ چینیوں کے مراسم شروع ہی سے ہیں، ہم نے چینیوں کو جہاز دیئے، کیا منظر تھا کہ 60ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں بیجنگ ایئرپورٹ پر چینی ہاتھ لگا کر دیکھتے تھے کہ اتنا خوبصورت جہاز.....!! جو جہاز ہم نے ماؤزے تنگ کو دیا تھا، اب بھی اس جہاز پر شکریئے کے ساتھ پاکستان کا نام لکھا ہوا ہے۔ چینی قیادت نے ترقی کا سوچا اور پھر مڑ کر نہیں دیکھا، ترقی کے راستے میں جو چیزیں بھی حائل تھیں، انہوں نے ان رکاوٹوں کو دور کیا۔ یہ 60ء ہی کی دہائی کی بات ہے جب پاکستان کی ایک اہم حکومتی شخصیت نے چینی صدر سے کہا کہ آپ کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے تو چینی صدر نے جواب دیا کہ’’ہم جانتے ہیں آبادی بڑھ چکی ہے مگر یاد رکھیئے! ہر چینی کے پاس کمانےکیلئےدو ہاتھ ہیں اور کھانےکیلئے ایک منہ‘‘۔ چین کے انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ نے اپنی زندگی ہی میں چینیوں سے کہہ دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میری برسی پر چھٹی نہ کرنا بلکہ اس روز چین کیلئے دو گھنٹے اضافی کام کرنا۔ چینی آج تک اس پر عمل پیرا ہیں۔ چینیوں نے دو بڑے زبردست کام کیے، ملک کے اندر ناقص تعمیر و ترقی کرنے والوں کو کڑی سزائیں دیں، کرپٹ افراد کیلئے موت کی سزا رکھی، چین کے جو علاقے غریب تھے، چینی وسائل کا رخ ان علاقوں کی طرف موڑ دیا۔ چین خاموشی سے ترقی کرتا رہا اور جب چینیوں نے دنیا کیلئے دروازے کھولے تو چین ترقی یافتہ بن چکا تھا۔ آج کی دنیا میں چینی معیشت بہت مضبوط ہے، امریکہ اس کا مقروض ہے اور اب تو چین نے جنگی ساز و سامان میںبھی اپنا لوہا منوا لیا ہے، آپ چین جائیں تو ترقی کی منازل دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہو جائیں گے، اب چین کا شمار بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ چینیوں کو انگریزی کا بخار نہیں چڑھا، انہوں نے انگریزی کے بغیر ترقی کی۔ یاد رکھیئے! زبانیں ترقی کا باعث نہیں ہوتیں، زبانیں تو صرف اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ چینی صرف اس لئے چینی بولتے ہیں کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ چین گونگا نہیں ہے، چین کی قابل رشک ترقی کے پیچھے چینی قیادت کا کرپشن سے پاک جذبہ ہے۔
جس طرح چین نے دنیا کیلئے پچاس ساٹھ سال دروازے بند رکھے، اسی طرح دنیا نے پچھلے 46 سال سے ایران کیلئے دروازے بند کر رکھے ہیں، ایران پر پابندیاں ہیں مگر یہ پابندیاں ایرانیوں کیلئے نعمت ثابت ہوئی ہیں، پابندیوں میں رہ کر ایرانیوں نے خود کفالت کا سفر طے کیا۔ وہ ہر چیز خود بناتے ہیں، خود انحصاری نے ایرانیوں کو ترقی کی منازل طے کروائیں اور حالیہ جنگ میں ایران نے ثابت کیا کہ اسکے پاس جنگی ساز و سامان بھی کمال کا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی صورت میں بپھرے ہوئے سانپ کو کچل کے رکھ دیا۔
اسرائیل کی ساری طاقت اور غرور ایرانیوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ اگر آپ ایران جائیں تو ان کی ترقی دیکھ کر بھی آپ کو حیرت ہو گی، آپ سوچتے رہ جائیں گے کہ پابندیوں میں جکڑا ہوا ملک اتنی ترقی کیسے کر گیا؟ صاف ستھرے ایران کی ترقی بول کر بتاتی ہے کہ ایرانیوں کو جینا آتا ہے۔ ایرانیوں نے بھی انگریزی کو ترقی کا زینہ نہیں بنایا۔ وہ فارسی بولتے ہیں اور فارسی پر فخر کرتے ہیں۔ انقلاب ایران کے بعد ایرانیوں کو جو قیادت میسر آئی، ان کی زندگیوں میں کرپشن نام کی چیز ہی نہیں ہے، وہ سادہ زندگی گزارتے ہیں اور سادگی پر ناز کرتے ہیں۔اگر چین اور ایران کے مقابلے میں پاکستان کو دیکھا جائے تو پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں کرپشن سے آلودہ ہیں، ہمارے ہاں کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں کرپشن کی داستانیں دراز نہ ہوتی ہوں، ہمارا پورا نظام کرپٹ سکھائی دیتاہے، کرپشن ترقی کو نگل جاتی ہے، ہماری قیادتوں کے ہاں انگریزی زبان کو ترقی سمجھا جاتا ہے، اگر ہمارے ہاں مادری زبانوں میں تعلیم دی جاتی تو آج ہم کہیں اور ہوتے۔ اگر کرپشن کے دریا کے آگے بند باندھ دیتے تو حالات مختلف ہوتے، اگر یہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو مناظر مختلف نظر آتے۔ کاش! ہم ایرانیوں اور چینیوں ہی سے کچھ سیکھ لیتے۔ آج کے منظر میں وصی شاہ کے اشعار یاد آتے ہیں کہ
اب اکیلا ہوں سفر میں تو خیال آتا ہے
غیر کا ذکر مرے آگے وہ کیوں کرتا تھا
سوچتے سوچتے یہ بات گزر جاوے ہے دن
یوں نہ کرتا تھا وہ اس بات کو یوں کرتا تھا