ملتان ( سٹاف رپورٹر)جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا صنعتی زون انڈسٹریل اسٹیٹ ملتان جو کہ 1410 ایکڑ رقبے پر محیط ہے اس وقت سیوریج کے ناقص نظام اور گندے، تعفن زدہ پانی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ صنعتی زون کے فیز ون اور فیز ٹو میں مجموعی طور پر تقریباً 500 کے قریب چھوٹی بڑی صنعتیں کام کر رہی ہیں، جو سیوریج لائنوں کی تباہ حالی کے باعث شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ اگر فوری اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو انڈسٹریل اسٹیٹ کے مکمل طور پر بند ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔انڈسٹریل سٹیٹ بورڈ آف منیجمنٹ کے مطابق انڈسٹریل اسٹیٹ کا قیام 1962 میں انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے تحت عمل میں لایا گیا تاکہ جنوبی پنجاب خصوصاً ملتان میں صنعتی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ 2005 میں بورڈ آف مینجمنٹ قائم کیا گیا جس نے اسٹیٹ کے امور کی نگرانی سنبھالی۔ 1985 میں ابتدائی سیوریج نظام بچھایا گیا جبکہ 2015 میں اس کی توسیع کے لیے دوسرا منصوبہ شروع کیا گیا، جس میں مبینہ طور پر ناقص مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ یہی ناقص منصوبہ بندی آج انڈسٹریل اسٹیٹ کی تباہی کی بڑی وجہ بن چکی ہے۔انڈسٹری مالکان کے مطابق 36 انچ قطر کی مرکزی سیوریج لائن متعدد مقامات پر بارھا پھٹ چکی ہے اور مکمل طور پر خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس لائن کی لمبائی 2700 میٹر بتائی جاتی ہے، جو اسٹیٹ سے گندے پانی کو دریا تک پہنچاتی ہے۔ تاہم، اب سٹرکچر اس حد تک خراب ہو چکا ہے کہ جگہ جگہ گندا پانی کھڑا ہو گیا ہے، جو صنعتوں کے اندر تک داخل ہو چکا ہے۔سروے کے دوران انڈسٹری اسٹیٹ میں کام کرنے والے مالکان اور مزدوروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔فیکٹری مالک ملک فہیم کا کہنا ہے بورڈ آف مینجمنٹ نے دس سالوں میں درجنوں بار پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (PIEDMC) کو اس سنگین صورتحال بارہ خطوط لکھے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی، اگر یہی حالات رہے تو فیکٹریاں بند کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔پلاسٹک فیکٹری کے مالک شیخ امجد نے شکوہ کیا کہ خام مال کی ترسیل رک چکی ہے، گندے پانی کے باعث مشینری بھی متاثر ہو رہی ہے، ہمیں روزانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔فیکٹری ورکر عبدالرحمان نے بتایا کہ ہم روزانہ پیدل آتے ہیں، لیکن راستے میں سیوریج کا پانی کھڑا ہوتا ہے۔ بدبو، بیماریاں، اور تکلیف نے جینا دوبھر کر دیا ہے۔خاتون ورکر نسرین بی بی نے بتایا کہ کئی خواتین نے کام پر آنا چھوڑ دیا ہے۔