• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس نے چند دن بعد اپنے مُلک کا صدر بننا تھا، لیکن اُس پر ایک سنگین الزام ثابت ہوچُکا تھا۔ اُس نے ایک پورن اسٹار کو اپنے ساتھ تعلق پر خاموش رہنے کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز ادا کیے تھے اور پھر یہ ادائی چُھپانے کے لیے اپنےکاروباری ریکارڈ میں جعل سازی کی تھی۔ 

عدالت اُسے مجرم قرار دے چُکی تھی، چار سال تک کی سزا سُنا سکتی تھی، لیکن پھر… ایک انوکھا فیصلہ آیا۔ عدالت نے کہا، جرم ثابت تو ہوتا ہے، لیکن آپ کے لیے کوئی سزا نہیں، کوئی جرمانہ نہیں۔ آپ جائیے اور عہدہ سنبھالیے۔ عدالت آپ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتی ہے۔ 

جج کے الفاظ تھے۔ ''Sir! I wish you godspeed as you assume your second term in office.'' اور یوں، امریکا کا صدر بننے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے راستے کی سب رکاوٹیں دُور ہوگئیں۔ جج، مجرم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے لگے۔ 

جرم ثابت ہوجائے، لیکن سزا نہ ملے۔ طاقت وَر قانون سے بچ نکلے۔ قانون کو موم کی ناک بنا کر اپنے حق میں موڑلیا جائے۔ سرکاری عہدہ، حق دارکے بجائے رشتے دارکو دے دیاجائے۔ اگر آپ کا خیال تھا کہ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے، تو یہ خیال غلط ہے۔

ہمیں امریکا سے متعلق بہت سی خوش گمانیاں تھیں۔ ایک خوش گمانی یہ بھی تھی کہ وہاں قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہوگا۔ حُکم ران یا اُس سے وابستہ کوئی فرد جرم کرتا ہوگا تو سزا پاتا ہوگا۔ ایک خوش گمانی یہ تھی کہ عُہدے اہلِ خانہ کے بجائے اہل افراد میں بانٹے جاتے ہوں گے۔ لیکن پھر حقائق سامنے آئے اور ساری خوش گمانیاں دُور ہوگئیں۔

جب جو بائیڈن امریکا کے صدر تھے، تو ان کے صدر ہوتے ہوئے بھی ری پبلکن پارٹی کی ہاؤس کمیٹی نے اُن کے خلاف تحقیقات کی تھیں۔ جوبائیڈن کے پاس سے کچھ ایسی دستاویزات ملی تھیں، جو کہ خفیہ نوعیت کی تھیں۔ اُن دستاویزات کو جو بائیڈن کے پاس نہیں بلکہ نیشنل آرکائیوز میں ہونا چاہیے تھا۔ یہ دستاویزات رکھنے پر جو بائیڈن کےخلاف تحقیقات ہوئیں۔ جب علم ہوا کہ امریکا کا نظامِ انصاف و قانون اپنے ہی صدر کے خلاف تحقیقات کررہا ہے، تو حیرانی بھی ہوئی اورامریکا کے نظامِ انصاف پر رشک بھی آیا۔

اُس کے بعد، جب جوبائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے خلاف تحقیقات ہوئیں تو بھی دانتوں میں انگلیاں دابیں۔ اپنے ہاں کے ’’شہزادے‘‘ یاد آئے، جو تحقیقات کا حصّہ بننے کے بجائے برطانیہ چلے گئے تھے اور کہا گیا کہ وزیراعظم کے بیٹے چوں کہ برطانوی شہری ہیں، تو اُن پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہنٹر بائیڈن کے خلاف امریکا میں مقدمات بنے، چلے، اُس وقت جب اُن کا باپ امریکا کا صدر تھا۔ 

یہ سب دیکھ کر خیال آیا کہ اسی وجہ سے تو امریکا دنیا کی بڑی طاقت بنا ہے کہ یہاں قانون طاقت وَر ہے، عہدے دار نہیں۔ لیکن پھر… جو ہوا، اُس نے سب خُوش گمانیاں ہوا کر دیں۔ امریکی صدر کے طور پرجو بائیڈن کی مدت 20 جنوری 2025 ء کو ختم ہو رہی تھی، اور اُس سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل، یعنی جاتے جاتے اُنہوں نے اپنے بیٹے کو صدارتی معافی نامہ دے دیا۔ جو بائیڈن کےبیٹے ہنٹربائیڈن نے2018 ء میں ایک ریوالور خریدا تھا، اعشاریہ تین آٹھ کیلیبر کا کولٹ کوبرا اسپیشل۔

امریکا میں بندوق خریدتے ہوئے آپ سے پوچھاجاتاہےکہ کیا آپ ممنوعہ ادویہ تو استعمال نہیں کررہے، یا نشے کے عادی تو نہیں۔ تو اُس وقت ہنٹربائیڈن نے کہا کہ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ نہ وہ منشیات استعمال کرتے ہیں نہ نشے کے عادی ہیں۔ پھر اُنہوں نے ایک کتاب لکھی، اپنی یادداشتوں پر مبنی، اُس کتاب کا نام تھا ''Beautiful Things'' (خُوب صُورت چیزیں) لیکن یہ ’’خُوب صُورت چیزیں‘‘ اُن کے لیے خاصی خوف ناک ثابت ہوئیں۔

کیوں کہ کتاب میں اُنہوں نےلکھاکہ 2019 ء کے بعد سے اُنہوں نے کوئی نشہ نہیں کیا۔ کتاب پڑھنے والوں نے کہا، اچھا، 2019 ء کے بعد سے آپ نے کوئی نشہ نہیں کیا، اِس کا مطلب ہے 2019 ء تک تو آپ نشہ کررہے تھے۔ اور 2018ء میں جب آپ نے پستول خریدا تھا اور کہا تھا کہ آپ کوئی نشہ نہیں کرتے، تو آپ نےجھوٹ بولا تھا۔ یوں، ہنٹر بائیڈن، امریکی صدر کے بیٹے پر، تین الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ 

پہلا الزام، آپ نے اے ٹی ایف فارم میں غلط بیانی کی۔ امریکا کا ادارہ ہے، بیورو آف الکوحل، ٹوبیکو، فائر آرمز اینڈ ایکسپلوزوس Bureau of Alcohol, Tobacco, Fire arms and Explosives۔ اے ٹی ایف۔ آپ کوئی ہتھیارخریدتے ہیں، تو یہ ادارہ آپ کو ایک فارم دیتا ہے، جس پرآپ لکھتے ہیں کہ آپ کسی قسم کا کوئی نشہ نہیں کرتے۔ تو ہنٹر بائیڈن پر پہلا الزام تھا کہ آپ نے اے ٹی ایف فارم میں غلط بیانی کی۔ 

دوسرا الزام تھاکہ غلط بیانی سے بےچارے اسلحہ فروش کو بھی گم راہ کیا۔ اور چوں کہ گن خریدتے وقت آپ نشے کےعادی تھے اوراس کے باوجود گن خریدی، تو یہ تیسرا جرم ہے، جو آپ نے کیا۔ سو، ان تینوں الزامات پر عدالت نے انہیں مجرم قرار دے دیا۔ انہیں 25 برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی تھی۔ 12 دسمبر2024 ء کو اُنہیں سزا سنائی جانی تھی۔ لیکن اِس سے پہلے ہی، 2 دسمبر کو، ان کے والد صاحب نے معافی کاصدارتی حکم نامہ جاری کردیا۔

اُنہی ہنٹر بائیڈن پر ایک اور کیس بھی بنایا گیا، ٹیکس چوری کا۔ یہ کیس بھی تب بنا، جب اُن کے والد امریکا کے صدر تھے۔ اُن پر ایک الزام تو یہ تھا کہ اُن پر 14 لاکھ ڈالرز کا ٹیکس واجب الادا تھا۔ ایک الزام یہ تھا کہ ٹیکس گوشوارے بروقت جمع نہیں کروائے تھے۔ ایک الزام یہ تھا کہ جب اُنہوں نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے، تو جھوٹ بولا اور ٹیکس چوری کی کوشش کی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ الزامات ہنٹربائیڈن نے قبول بھی کر لیے تھے۔ اس پر اُنہیں 17 سال تک قید کی سزا ہوسکتی تھی۔ یہ سزا بھی سولہ دسمبر دو ہزار چوبیس کو سُنائی جانی تھی۔ لیکن ان کے والد صاحب نے اُس سے پہلے ہی اُن کی سزا معاف کردی۔

اور…ڈونلڈ ٹرمپ تو خُود مجرم ہوتے ہوئے بھی امریکا کی صدارت کررہے ہیں، تو اُنہوں نے بھی نہ صرف اپنے یاروں کے جرم معاف کیے ہیں بلکہ اپنے رشتےداروں میں عہدے بھی بانٹے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سمدھی ہیں چارلس کشنر۔ ان کے خلاف غیرقانونی سیاسی عطیات دینے، اپنے خلاف کیس میں گواہ پر دباؤ ڈالنے، اور ٹیکس چوری کرنے کے الزامات تھے۔ یہ الزامات ثابت ہونے پر اُنہیں دو ہزار پانچ میں دو سال قید کی سزاسنائی گئی تھی۔

وہ سزا تو کاٹ چُکے تھے، لیکن سزایافتہ ہونےکی وجہ سے کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ 2020 ء میں صدر ٹرمپ نےاپنی مدتِ صدارت ختم ہونے سے پہلے اپنے سمدھی کو معافی دےدی۔ اور 2025 ء میں جب دوبارہ صدر بنے تو اپنے سزا یافتہ سمدھی کو فرانس کا سفیر بنا دیا۔ اِسی طرح Paul Manfort نامی ایک شخص ٹرمپ کی سیاسی مہم کا چیئرمین تھا۔ ٹیکس اور بینک فراڈ کا جرم ثابت ہونے پر اُسے چار سال کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن ٹرمپ نےاُسے بھی معاف کر دیا۔

ایک اور مثال، ٹرمپ کے ایک مشیر راجر اسٹون کی ہے۔ 2016 ء میں امریکی سیاست دان ہلیری کلنٹن کی کچھ ای میلز، وکی لیکس نے لیک کر دی تھیں۔ اُن سے ہلیری کو سیاسی طور پر نقصان ہوا تھا۔ راجر اسٹون پر الزام لگا کہ اُنہوں نے وکی لیکس سے خفیہ رابطے کیے، اور جب ان رابطوں کا پوچھا گیا تو راجر اسٹون نے کانگریس کے سامنے جھوٹ بولا اور کیس کے گواہوں پر دباؤ بھی ڈالا۔ 

اِن جرائم پر راجر اسٹون کو سزا ہوئی، لیکن ٹرمپ نے اُنہیں صدارتی معافی دے دی۔ اسی طرح اسٹیفن کے بینن نامی شخص ڈونلڈ ٹرمپ کی 2016 ء کی الیکشن مہم کا strategist تھا۔ اُس نے لوگوں سے میکسیکو کی سرحد پر باڑ بنانے کے نام پہ خاصی رقم بٹور کے خورد برد کردی تھی۔ اُس پربھی فراڈ کا کیس بنا، لیکن ٹرمپ نے معافی دے دی۔ نیز، ٹرمپ اُن سب لوگوں کو بھی معافی دے چُکے ہیں، جنہوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا تھا۔

یہ محض چند ایک مثالیں ہیں، اِن سے کوئی حتمی نتیجہ تو اخذ نہیں کیا جاسکتا، لیکن ایک بات ضرورسمجھ آتی ہے کہ امریکا جیسے مُلک میں بھی قانون اور انصاف، اختیار ہی کے تابع ہوتے ہیں اور نہ ہوں، تو کردیئے جاتے ہیں۔