• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزارتوں میں مالی بے ضابطگیاں، 1100 ارب روپے سے زائد کا نقصان

انصار عباسی

اسلام آباد:…آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے مالی سال 2023-24ء کی آڈٹ رپورٹ میں وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں سنگین مالی بے ضابطگیوں، قواعد کی خلاف ورزیوں اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ میں 1100؍ ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں، نقصانات اور دیگر مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے، جو مالیاتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی، غیر مجاز ادائیگیوں اور ادارہ جاتی کنٹرولز کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ رپورٹ میں سب سے سنگین معاملہ 35؍ لاکھ 90؍ ہزار ٹن گندم کی درآمد کو قرار دیا گیا ہے، جو اس وقت کی گئی جب ملک میں مقامی سطح پر وافر مقدار میں گندم موجود تھی۔ اس فیصلے سے 300؍ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، مقامی منڈی میں گندم کی بھرمار ہوئی اور کاشتکاروں کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ متعدد وزارتوں نے بجٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کیے، جو مالیاتی قواعد کی خلاف ورزی ہے؛کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ملازمین کو اضافی الاؤنسز کی مد میں زیادہ ادائیگیاں کی گئیں، جس سے قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ پڑا؛سول آرمڈ فورسز میں غیر مجاز ادائیگیاں اور خریداری میں بے قاعدگیاں ہوئیں؛نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی میں ملازمین کو غیر قانونی تنخواہیں اور مراعات دی گئیں؛پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں غیر قانونی ادائیگیاں، بے ضابطہ معاہدے اور مالی بدنظمی کا انکشاف ہوا، اور غلط استعمال شدہ فنڈز کی ریکوری کی سفارش کی گئی؛ایویکیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ، جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹیز اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اراضی پر غیر قانونی قبضے کے واقعات سامنے آئے؛متعدد ادائیگیوں پر واجب الادا ٹیکس منہا نہ کرنے سے محصولات میں کمی اور ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 1.69؍ ارب روپے کی خوردبرد اور فرضی ادائیگیوں کے پانچ کیسز رپورٹ ہوئے؛689.48؍ ارب روپے کی 107؍ ریکوری کیسز کی نشاندہی کی گئی جن پر فوری اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے؛کمزور داخلی کنٹرول کے 39؍ کیسز رپورٹ ہوئے جو 160.39؍ ارب روپے سے جڑے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، درجنوں دیگر آڈٹ پیراز جن میں اندرونی کنٹرول کی ناکامی اور طریقہ کار کی خلاف ورزیاں شامل ہیں، انہیں مالی نظم و احتساب کی مینجمنٹ رپورٹ (MFDAC) میں شامل کیا گیا لیکن چونکہ ان کی مادی اہمیت کم تھی، لہٰذا انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے روبرو پیش نہیں کیا گیا۔مالی بے ضابطگیوں کے ازالے کیلئے اے جی پی نے کئی اہم سفارشات پیش کی ہیں جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں: کوئی بھی سرکاری خرچ پارلیمانی منظوری کے بغیر نہ کیا جائے؛ضمنی گرانٹس صرف درست اندازے اور مالی سال میں جاری کی جائیں؛سنگین خوردبرد کے کیسز تحقیقاتی اداروں کو بھیجے جائیں؛تمام غیر خرچ شدہ بقایہ جات اور وصولیاں سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائیں؛داخلی آڈٹ اور کنٹرول کا نظام مضبوط کیا جائے؛ تمام ادارے آڈیٹرز کو مکمل ریکارڈ فراہم کریں؛اثاثوں کا باقاعدہ رجسٹر رکھا جائے اور سالانہ بنیادوں پر باضابطہ تصدیق کی جائے۔آڈیٹر جنرل کی 2023-24ء کی آڈٹ رپورٹ میں ملک میں سرکاری فنڈز کے نظم و نسق کی انتہائی تشویشناک منظر کشی کی گئی ہے۔ اربوں روپے کی بے ضابطگیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ادارہ جاتی اصلاحات، سخت نگرانی اور احتساب کے موثر نظام کی فوری ضرورت ہے تاکہ سرکاری فنڈز کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور وفاقی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔ اس ضمن میں جب حکومت کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ آڈٹ رپورٹس ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سیز) میں زیر بحث آتی ہیں، جس کی صدارت پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر (پی اے و) کرتے ہیں۔ زیادہ تر آڈٹ مشاہدات ڈی اے سی کی سطح پر حل ہو جاتے ہیں اور انہیں پی اے سی کو منظوری کیلئے بھیجا جاتا ہے، جو عموماً ان کی توثیق کر دیتی ہے۔‘‘ ترجمان کا کہنا تھا کہ ان بے ضابطگیوں کو حتمی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ پی اے سی پہلے ہی تمام پرنسپل اکائونٹنگ افسران کو ہدایت دے چکا ہے کہ ڈی اے سی کے اجلاس ماہانہ بنیادوں پر منعقد کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آڈٹ اعتراضات ڈی اے سی کی سطح پر حل کیے جا سکیں۔

اہم خبریں سے مزید