لاہور ( آصف محمود بٹ) جبری مشقت، چائلڈ لیبر، خطرناک مشقت میں کم عمر افراد کی ملازمت پر سخت سزائیں تجویز،صنعتوں میں کام کرنے والوں پر جسمانی تشدد یا دھمکی کے ذریعے مطالبات منوانے کا عمل بھی قابل تعزیر جرم ہوگا ۔ پنجاب حکومت مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور بین الاقوامی لیبر قوانین سے ہم آہنگ ایک جامع قانونی فریم ورک "پنجاب لیبر کوڈ 2025ء" نافذ کرنے جا رہی ہے۔ اس انقلابی قانون میں جبری مشقت، بچوں سے مزدوری، غیر محفوظ کام کے حالات، صنعتی دباؤ اور کم عمر افراد کو خطرناک کاموں میں لگانے کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں،ماہرین کی رائے ہے کہ عدالتی احتساب کا ایک مضبوط نظام قائم کیا گیا ہےتاہم اصل چیلنج اس قانون کے مؤثر نفاذ کا ہے ۔’’جنگ‘‘ کو ملنے والے دستاویزات کے مطابق لیبر انسپکٹرز اور بعض یونین سے متعلقہ معاملات میں رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجسٹریٹ فرسٹ کلاس یا لیبر کورٹ میں کسی خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کاروائی کا آغاز کر سکیں گے۔ جن مقدمات میں قید کی سزا دی جانی ہو، ان میں جرم کو "شک سے بالاتر" ثابت کرنا ہوگا، جبکہ دیگر معاملات میں "توازن شہادت" کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔ لیبر انسپکٹروں کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے، جبری یا بچوں سے مشقت ختم کروانے کے احکامات ماننے سے انکار کرنے یا نوٹس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں 3 ماہ تک قید یا 7 سے 70 پینلٹی یونٹس تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ جبکہ جبری مشقت کروانے والوں کو 2 سے 5 سال قید اور 5 سے 50 پینلٹی یونٹس تک جرمانے کی سزا ہو سکے گی۔اگر جبری مشقت کے لیے کسی فرد کو زبردستی بھرتی، نقل و حمل یا پناہ دینے جیسے جرائم میں ملوث پایا گیا تو اسے 7 سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔ اگر متاثرہ شخص عورت یا بچہ ہو تو کم از کم سزا 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال مقرر کی گئی ہے، ساتھ ہی 10 سے 100 یونٹس تک جرمانے کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ کوئی بھی مالک یا ذمہ دار شخص اگر کسی بچے یا کم عمر فرد کو خلاف قانون ملازمت پر رکھے گا تو اسے کم از کم 7 دن اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید کی سزا دی جا سکے گی، اور ساتھ ہی 5 سے 50 یونٹس جرمانہ بھی ہوگا۔