لندن (مرتضیٰ علی شاہ) بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر اور میجر (ر) عادل راجہ کے درمیان ہائی پروفائل ہتکِ عزت مقدمہ جمعرات کو لندن ہائی کورٹ میں ختم ہوگیا، جس میں ڈپٹی ہائی کورٹ جج رچرڈ اسپیئر مین کے سی نے مقتول صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرکاری فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہیں بھی آئی ایس آئی کو اس قتل کا ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا، حالانکہ عادل راجہ نے اپنی گواہی میں اس دعوے کو بنیاد بنایا تھا کہ ارشد شریف کا قتل آئی ایس آئی نے کرایا۔ عادل راجہ کے وکیل سائمن ہارڈنگ نے حتمی دلائل میں موقف اختیار کیا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو ایک پہیلی کی طرح جوڑ کر نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کے پیچھے آئی ایس آئی ہے۔ اس پر جج نے 600؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پوری رپورٹ کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں کہیں بھی آئی ایس آئی کو قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ جج کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایس آئی ملوث ہوتی تو رپورٹ میں واضح طور پر اس کا ذکر ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ مقدمے کے آخری روز عدالت نے عادل راجہ کے وکیل سے پوچھا کہ وہ ثابت کریں کہ ان کی شائع کردہ باتیں عوامی مفاد میں تھیں، ان کے ذرائع کتنے قابلِ اعتبار تھے، آیا وہ ذرائع حقیقت میں موجود بھی تھے یا کہانیاں من گھڑت تھیں۔ دوسری جانب مدعی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ان اشاعتوں کی وجہ سے انہیں برطانیہ میں سنگین نقصان پہنچا۔ عادل راجہ کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل تسلیم کرتے ہیں کہ الزامات سنگین نوعیت کے تھے، لیکن اس سے مدعی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تین سال گزر چکے ہیں، اور کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ راشد نصیر نے اب تک اپنے کسی بھی نقصان کا ثبوت نہیں دیا۔ عادل راجہ نے جو معلومات شائع کیں، وہ قابل اعتبار ذرائع سے حاصل ہوئیں، جن کی شناخت ظاہر کرنا ان کی سلامتی کیلئے نقصان دہ ہو سکتا تھا۔ جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ذرائع کی ساکھ ہمیشہ اہم ہوتی ہے، اگر ذرائع غیر معتبر ہوں یا کوئی خفیہ ایجنڈا ہو، تو فراہم کردہ معلومات بھی ناقابلِ اعتبار ہو سکتی ہے۔ عدالت کے سامنے دفاع کے حق میں کوئی بھی تحریری یا بصری مواد پیش نہیں کیا گیا جس سے ثابت ہو کہ کسی مخصوص ذریعے نے عادل راجہ کو یہ معلومات فراہم کیں، نہ کوئی پیغام، نہ کوئی اسکرین شاٹ، کوئی قابلِ اعتبار ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ عدالت میں عادل راجہ کے دفاع میں تین گواہوں: شہزاد اکبر، شاہین صہبائی اور سید اکبر نے حاضری دی اور تینوں نے تسلیم کیا کہ وہ حکومتِ وقت کے ناقد ہیں اور وہ عادل راجہ کے ساتھ سوشل میڈیا مواد میں باقاعدگی سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ ان کا عادل راجہ کے ساتھ کوئی مالی لین دین نہیں رہا، البتہ سید اکبر نے بتایا کہ وہ یوٹیوب چینل بند ہونے تک آمدن میں عادل راجہ کے ساتھ شراکت دار تھے۔ شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مدعی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہزاد اکبر اور راشد نصیر کی ملاقات 2022 میں ہوئی، جس میں شہزاد اکبر نے راشد نصیر سے درخواست کی کہ وہ شہباز شریف کیخلاف مقدمات کی کارروائی تیزی لانے میں مدد دیں تاکہ انہیں سزا دی جا سکے، لیکن راشد نصیر نے کہا کہ یہ ان کا کام نہیں۔ شہزاد اکبر نے تسلیم کیا کہ ان کی راشد نصیر سے ملاقات ہوئی تھی، تاہم ان کے مطابق یہ ملاقات اسٹیبلشمنٹ کی عدلیہ میں مبینہ مداخلت کا معاملہ اٹھانے کیلئے ہوئی تھی۔ انہوں نے مسٹر مٹھو کی مبینہ کرپشن کا ذکر کیا، جس پر راشد نصیر نے فرح گوگی (بشریٰ بی بی کی قریبی دوست) کی مبینہ کرپشن کا حوالہ دیا۔ شاہین صہبائی اور شہزاد اکبر دونوں نے عدالت میں تسلیم کیا کہ ان کے علم میں نہیں کہ راشد نصیر نے لاہور ہائی کورٹ پر کنٹرول حاصل کر کے 2022ء کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ اس مقدمے کے مرکز میں وہ تقریباً 9 اشاعتیں ہیں جن میں عادل راجہ نے راشد نصیر پر 2023 کے انتخابات میں دھاندلی کیلئے لاہور ہائی کورٹ پر کنٹرول حاصل کرنے جیسے الزامات عائد کیے تھے۔ عدالت کا فیصلہ چند ہفتوں میں سنایا جائے گا۔