• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینظیر نشونما پروگرام، مفتاح اسماعیل کی اختیارات کے ناجائز استعمال کی تردید

اسلام آباد (فخر درانی) وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی جانب سے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پر ’’بینظیر نشوونما پروگرام‘‘ کا ٹھیکہ اپنی ہی کمپنی کو دینے کے الزام کے بعد یہ تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے مفادات کے تصادم اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ حکومتی ترجمان نے وضاحت کی کہ کسی بھی وزارت کو بجٹ میں اضافہ کرنے کیلئے وزارتِ خزانہ کی منظوری درکار ہوتی ہے دوسری جانب مفتاح اسماعیل نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے پروگرام کا بجٹ منظور کیا، نہ اس میں اضافہ کیا، اور نہ ہی ٹھیکہ دینے کے عمل پر اثرانداز ہوئے۔ دونوں فریقین اپنے موقف پر قائم ہیں، جس سے یہ معاملہ سنجیدہ رخ اختیار کر گیا ہے اور شفافیت، مفادات کے تصادم اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ پر سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ اس الزام کی جڑ تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ بینظیر نشوونما پروگرام کی ابتدا اور اس میں ’’اسماعیل انڈسٹریز‘‘ کے شامل ہونے کا پس منظر معلوم کیا جائے۔ دسمبر 2019ء میں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بورڈ نے ایسے اضلاع میں بچوں کی کمزوری اور غذائی قلت سے نمٹنے کیلئے ’’خصوصی غذائیت بخش خوراک‘‘ (ایس این ایف) کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا۔ اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اس کا شراکت دار مقرر کیا گیا، کیونکہ عالمی تنظیم کو تکنیکی مہارت حاصل تھی۔ بورڈ کو بتایا گیا کہ یہ منصوبہ چند اضلاع میں پائلٹ بنیادوں پر شروع کیا جائے گا اور بعد ازاں ورلڈ فوُڈ پروگرام کی کارکردگی کا جائزہ لے کر اس کا دائرہ ملک بھر تک پھیلایا جائے گا۔ بورڈ کے میٹنگ منٹس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس پروگرام کیلئے درکار خصوصی غذائی خوراک (ایس این ایف) پہلے سے پاکستان میں تیار ہو رہی ہے۔ آئندہ چند برسوں کے دوران اس پروگرام کیلئے مختص فنڈز میں نمایاں اضافہ ہوتا گیا۔ 2020-21ء میں اس کیلئے 2.098؍ ارب روپے مختص کیے گئے، 2021-22ء میں یہ بڑھ کر 4.87؍ ارب، 2022-23ء میں 20.66؍ ارب، 2023-24ء میں 34.67؍ ارب، اور 2024-25ء میں 42.10؍ ارب روپے ہو گئے۔ سال 2022-23ء سے 2024-25 تک ’’اسماعیل انڈسٹریز لمیٹڈ‘‘ نے اس پروگرام کے تحت ایس این ایف کے واحد سپلائر کے طور پر کام کیا، اور تقریباً 47؍ ارب روپے حاصل کیے۔ اپریل 2022ء میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد، مفتاح اسماعیل کو پی ڈی ایم حکومت میں وزیر خزانہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے تقریباً 6؍ ماہ (اپریل تا ستمبر 2022ء) تک یہ عہدہ سنبھالا، پھر مستعفی ہو گئے۔ اس تنازع کے حوالے سے دیکھا جائے تو چند روز قبل، وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے سینیٹ میں بتایا کہ 2022ء سے اب تک بینظیر نشوونما پروگرام کیلئے 97؍ ارب روپے مختص کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مفتاح اسماعیل نے بطور وزیر خزانہ اپنے دور میں پروگرام کے بجٹ میں اضافہ کیا اور ’’اسماعیل انڈسٹریز لمیٹڈ‘‘ کو ایس این ایف کی فراہمی کا ٹھیکہ دیا، جو ان کی اپنی کمپنی ہے۔ ڈاکٹر طارق فضل نے سوال اٹھایا کہ عہدے پر موجود ایک وزیر کیسے کسی ایسی کمپنی کو اربوں کا ٹھیکہ دے جو اس کی اپنی ہو؟ یہ مفادات کے تصادم کی واضح مثال ہے۔ ایک اعلیٰ حکومتی ترجمان نے وضاحت کی کہ کسی بھی وزارت کو بجٹ میں اضافہ کرنے کیلئے وزارتِ خزانہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی مجھے اپنے شعبے کے پبلسٹی بجٹ میں اضافہ کرنا ہوتا ہے، تو مجھے وزارتِ خزانہ سے کہنا پڑتا ہے۔ ہر بجٹ الاٹمنٹ وزارتِ خزانہ کی منظوری سے ہوتی ہے۔ وزارتیں صرف تجاویز دے سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مفتاح اسماعیل کو بطور وزیر خزانہ یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ان کی کمپنی اس پروگرام سے مستفید ہو رہی ہے، اور انہیں کابینہ و دیگر فورمز سے خود کو علیحدہ کر لینا چاہئے تھا۔ انہیں مفادات کے تصادم کا اعتراف کرنا چاہئے تھا۔ اس حوالے سے مفتاح اسماعیل نے دی نیوز کو دیے گئے مفصل جواب میں کہا کہ انہوں نے نشوونما پروگرام کے بجٹ میں کوئی کردار ادا کیا اور نہ کسی مرحلے پر اس پروگرام کے فیصلے میں مداخلت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب جانتے ہیں کہ میری فیملی اسماعیل انڈسٹریز کی مالک ہے، اور وزیرِاعظم سمیت کابینہ کے تمام ارکان بھی اس سے واقف تھے۔ نشوونما پروگرام کا بجٹ بی آئی ایس پی اور وزارتِ غربت مکاؤ نے مختص کیا، وزارتِ خزانہ نے نہیں۔ مجھے آج تک یہ تک نہیں پتہ تھا کہ اصل اعداد و شمار کیا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے وزارت چھوڑنے کے بعد بھی نشوونما پروگرام کے بجٹ میں اضافہ ہوتا رہا۔ شاید اس کی وجہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایات اور بی آئی ایس پی کی ترجیحات ہوں گی۔ میرے وزیرِ خزانہ ہونے کے دوران بی آئی ایس پی کا ہماری کمپنی کے کاروبار میں حصہ 10؍ فیصد سے بھی کم تھا، آپ کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا میں نے کبھی بی آئی ایس پی، وزارت غربت مکاؤ، ڈبلیو ایف پی یا وزارت خزانہ سے اس پروگرام یا اپنے کاروبار کے بارے میں کوئی بات کی؟ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جب میں کسی فیصلے میں شامل ہی نہیں تھا تو مفادات کا تصادم کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہ واضح کس کو کرنا تھا؟ جب سب کو معلوم ہے کہ یہ کمپنی ہماری ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ بی آئی ایس پی کا کل بجٹ 2021-22ء میں 236؍ ارب روپے تھا، جو 2022-23ء میں بڑھ کر 412؍ ارب ہو گیا۔ وسیلہ تعلیم کا بجٹ 8؍ ارب سے 20؍ ارب ہو گیا، اور نشوونما کا بجٹ 5؍ ارب (2؍ ارب نہیں) سے 20؍ ارب ہو گیا۔ بی آئی ایس پی بورڈ نے کئی پروگراموں کیلئے فنڈز میں اضافہ کیا۔ یہ اضافہ بھی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہوا۔ غذائیت سے بھرپور خوراک کی سپلائی سے متعلق مفتاح نے کہا کہ ہم گزشتہ دو دہائیوں سے اس کاروبار میں ہیں، اور ڈبلیو ایف پی کی پیشکش پر اس میں داخل ہوئے۔ ہمارا ادارہ اب دنیا کا سب سے بڑا ایس این ایف پروڈیوسر ہے، فرانسیسی کمپنی نیوٹرا سیٹ سے بھی آگے ہیں، یہ ایک پاکستانی کمپنی کی بین الاقوامی کامیابی کی کہانی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم آئی سی آر سی، ایم ایس ایف، ایکشن اگینسٹ ہنگر، آغا خان نیٹ ورک، عالمی ادارہ صحت، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، اور متعدد دیگر اداروں کو سپلائی فراہم کرتے ہیں، ہم ڈبلیو ایف پی کے روم ہیڈکوارٹر، ڈبلیو ایف پی پاکستان، یونیسیف کوپن ہیگن، اور یونیسیف پاکستان کو بھی سپلائی فراہم کرتے ہیں، اور ان کے ذریعے افغانستان، بنگلہ دیش، میانمار، سوڈان، یمن، لبنان، ملاوی، چاڈ، شام، کینیا وغیرہ کو بھی خوراک فراہم کرتے ہیں۔ ایک طرف حکومت اپنے موقف پر قائم ہے کہ مفادات کے تصادم اور بجٹ پر اثر انداز ہونے کا واقعہ پیش آیا، جبکہ دوسری جانب مفتاح اسماعیل ہر قسم کے مداخلت یا ذاتی فائدے کے الزام کو مسترد کر رہے ہیں۔ دونوں فریقین نے اپنے دلائل کے ساتھ ریکارڈ اور وضاحت پیش کی ہے۔ چونکہ معاملہ سرکاری فنڈز سےجڑا ہے، اور سیاسی طور پر حساس ہے، اس لیے امکان ہے کہ یہ تنازع آنے والے دنوں میں بھی خبروں میں رہے گا۔
اہم خبریں سے مزید