• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی طرف سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2002ء کی بعض شقوں میں ترمیم کے بعد سے ملک بھر کی بزنس کمیونٹی شدید اضطراب میں مبتلا ہے۔ اس حوالے سے بزنس کمیونٹی کی جانب سے خاص طور پر سیکشن 37اے اور 37بی میں کی گئی ترمیم اور لازمی ڈیجیٹل انوائسنگ و ای بلٹی سسٹم کے نفاذ پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس ترمیم کے تحت حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسران کو پیشگی عدالتی منظوری کے بغیر کاروباری اداروں کے سربراہان اور اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کرنے، حراست میں لینے اور تفتیش کرنے کی اجازت دیکر ایک طرح سے بیوروکریسی کو بزنس کمیونٹی کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کی کھلی چھوٹ دیدی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کا یہ اقدام آئینی اور شہری حقوق کی بھی واضح خلاف ورزی ہے۔اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صورتحال میں فوری بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن اب بھی محصولات کی وصولی کے نظام میں موجود خامیوں کو ختم کرنے کیلئے اصلاحات کرنے کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اصلاحات اس وجہ سے بھی ضروری ہیں کہ بزنس کمیونٹی پہلے ہی بیوروکریسی بالخصوص ایف بی آر حکام کی طرف سے بلاجواز ہراسمنٹ اور ٹیکس قوانین کے نام پر کاروباری امور میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے روئیے کی وجہ سے نالاں ہے۔ ایسے میں اگر انہیں حکومت کی طرف سے قانونی چھتری بھی فراہم کر دی جائے گی تو بیوروکریسی کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کرنے کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں عدالتی نگرانی کے بغیر ٹیکس حکام کو گرفتاری کے آمرانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ اس قانون کو تاجر، مینوفیکچررز اور برآمد کنندگان درست طور پر ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں اختیارات کے غلط استعمال سے نہ صرف بدعنوانی اور کرپشن میں اضافہ ہو گا بلکہ کاروباری سرگرمیاں بھی مزید تنزلی کا شکار ہو جائیں گی۔ اس حوالے سے بزنس کمیونٹی میں پایا جانے والا یہ خدشہ بھی بڑی حد تک درست ہے کہ پاکستان کے پیچیدہ ٹیکس نظام میں پائی جانے والی طریقہ کار یا ریکارڈ کیپنگ کی غلطیوں کو مجرمانہ اقدام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس صوابدیدی قانون کے نفاذ سےخاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کیلئے مشکلات میں اضافے ہونے کا امکان ہے کیونکہ ان کے پاس مالیاتی امور سے متعلق عملے اور قانونی وسائل کی پہلے ہی شدید کمی ہوتی ہے۔ اس لئے کسی عدالتی نگرانی اور اختیارات کے غلط استعمال پر احتساب کے شفاف نظام کی موجودگی کے بغیر ٹیکس حکام کی جانب سے گرفتاری، حراست یا تفتیش کے اختیارات کا غلط استعمال رشوت ستانی کے لئے دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔علاوہ ازیں یہ اقدام کاروبار کرنے میں آسانی کو فروغ دینے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے حکومت کے بیان کردہ مقصد سے بھی متصادم ہے۔ ایف بی آر کو پولیس جیسے اختیارات دینے سے سرمایہ کاروں اور بزنس کمیونٹی کو غلط پیغام دیا گیا ہے جو کہ پہلے ہی کاروباری لاگت میں اضافے، روپے کی قدر میں عدم استحکام، بلند شرح سود اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے دستاویزی معیشت کا حصہ بننے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو گی اور قانونی طور پر کام کرنے کے خواہاں کاروباری ادارے بھی ٹیکس چوری کے راستے تلاش کرنے شروع کر دینگے۔ اس طرح ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے مقصد کو بھی نقصان پہنچے گا جبکہ اثاثہ جات پر قبضے اور قانونی پریشانیوں کا خوف کاروباری افراد کو کاروبار کی مزید توسیع یا سرمایہ کاری کرنے سے روکنے کا باعث بنے گا۔

ٹیکس قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے اگرچہ حکومت کا یہ موقف ہے کہ یہ اصلاحات ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کیلئے ضروری ہیں کیونکہ پاکستان میں ٹیکس دینے کا تناسب خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ استدلال بھی دیا جا رہا ہے کہ جعلی انوائسنگ، بے نامی لین دین اور انڈر رپورٹنگ کیلئے ٹیکس حکام کو یہ اختیارات دینا ضروری ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیاں ختم کیے بغیر اور ٹیکس دہندگان کو اعتماد میں لئے بغیر اس طرح کے سخت اقدامات کے نفاذ سے ٹیکس دہندگان کی تعداد اور محصولات میں اضافے کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ پاکستان کو ایک جدید اور شفاف ٹیکس نظام کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے قانون کو سخت اور یکطرفہ بنانے کی بجائے ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس دہندگان ٹیکس حکام کی بلاجواز کی بلیک میلنگ اور ہراسمنٹ سے نجات پا سکیں۔ اس حوالے سے صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ان قوانین پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ بزنس کمیونٹی کا اعتماد بحال ہو سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو کاروباری طبقے اور تاجروں کا دوست تصور کیا جاتا تھا لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ بیوروکریسی نے حکومت اور بزنس کمیونٹی کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا ہے جو کسی طرح سے بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لئے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو صورتحال میں بہتری کیلئے فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جس طرح انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے اسی طرح معیشت کو دوبارہ تنزلی سے دوچار کرنے کی کوششوں کا بھی تدارک کیا جا سکے۔

تازہ ترین