پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونیوالے تجارتی معاہدے کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں تاہم ابتدائی خبروں کے بعد جس قدر خوش آئند تاثرات کا اظہار کیا جارہا تھا، اب وہ کیفیت بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے اور اہم سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ذرائع کے توسط سے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ پاکستانی برآمدات پر 15فی صد محصول عائد کیے جانے کی توقع تھی لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اسکے بجائے 19فی صد محصول عائد کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کی بعض سخت شرائط کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ تھا۔ بھارت اور چین کی امریکہ کو برآمدات پر اگرچہ نسبتاً خاصا زیادہ ٹیرف عائد کیا گیا ہے لیکن بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ، سری لنکا اور کمبوڈیا جیسے ممالک پر ٹیرف کی شرح20فیصد ہے جس کی وجہ سے ان کی برآمدات کے ساتھ پاکستان کیلئے مسابقت بہت مشکل ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ ان ملکوں میں مصنوعات کی تیاری کی لاگت بجلی کے نرخ اور بینکوں کی شرح سود کم ہونے کے باعث پاکستان کی نسبت نمایاں طور پر کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاجر برادری نے اس مؤقف کا اظہار کیا ہے کہ پاکستانی حکام کو امریکی تجارتی نمائندوں کیساتھ مزیدبات چیت کرکے ٹیرف کو 15سے 17فیصد کرنے پرزوردینا چاہئے۔ انکے بقول بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں ایک فیصد کا فائدہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا جبکہ اگر بھارتی مصنوعات پر عائد 25فیصد ٹیرف کو کم کر کے کسی معقول سطح پر لے آیا گیا تو پھر صورتحال انتہائی ناسازگارہو جائیگی یعنی پاکستانی برآمدات کو امریکہ میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ تاہم ذرائع کے مطابق پاکستانی مذاکرات کار اب بھی پر امید ہیں کہ یہ ٹیرف کم ہو سکتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس کیلئے پاکستان کو امریکہ کی سخت شرائط قبول کرنا ہونگی جن کے بارے میں ابھی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ تاہم صدر ٹرمپ کی بین الاقوامی پالیسیوں اور ترجیحات کی روشنی میں یہ گمان بلا جواز نہیں کہ ان شرائط میں ابراہام ایکارڈ میں شمولیت اور اسرائیل کو تسلیم کئے جانے جیسی شرائط شامل ہوں گی جن کو ماننا پاکستانی قوم کیلئے اپنے نظریاتی تشخص اور فلسطینی مسلمانوں کی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حوالے سے روزِ اول سے اختیار کیے گئے دوٹوک مؤقف کی بنا پر کسی طرح قابل قبول نہیں۔ پاک امریکہ تجارتی معاہدے کے مکمل تفصیلات کا پاکستانی عوام کے علم میں لایا جانا ضروری ہے اور توقع ہے کہ پاکستانی مذاکرات کاروں کی وطن واپسی کے بعد یہ معاہدہ مکمل طور پر منظر عام پر لے آیا جائیگا ۔ اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس میں پاکستان میں تیل کی تلاش میں امریکہ کی شمولیت کی شق خاص طور پر اہم ہے۔ اس حوالے سے بھی کئی پہلو قابل غور ہیں جن میں ملک کے مختلف حصوں بالخصوص بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں میں کئی عشروں سے چین کی سرگرم شمولیت کیساتھ ساتھ امریکی اداروں کے برسرکار ہونے کے قابل عمل ہونے کا سوال خاص طور پر اہم ہے۔ علاوہ ازیں یہ امکان بھی موجود ہے کہ امریکہ بھارت ، چین اور دوسرے بعض ملکوں پر لگائے گئے ٹیرف کی شرح میں کمی کردے۔ اس صورت میں امریکہ کو پاکستانی برآمدات کی بمشکل ہی کوئی گنجائش رہے گی۔ پاکستانی برآمدات کی مسابقت کی صلاحیت کو بہتر بنانے کیلئے سستی بجلی و گیس اور اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی ضروری ہے جس کا مطالبہ تاجر برادری کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ نیز یہ کہ پاک امریکہ تعلقات کی پون صدی پر محیط تاریخ کے پیش نظر امریکہ کے رویوں کا ناقابل اعتبار ہونا ایک واضح حقیقت ہے اور اسکا کسی بھی وقت نظریں بدل لینا عین ممکن ہے جبکہ پاکستان کیساتھ چین کی دوستی ہر آزمائش پر ہمیشہ پورا اتری ہے لہٰذا ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں چین کا سرفہرست رکھا جانا لازمی ہے ۔