اسلام آباد (اسرار خان) حکومت کا چینی درآمد کا معاہدہ خفیہ، آئی ایم ایف نظرانداز؛ ٹینڈر کس نے جیتا، کب جاری ہوا اور کس قیمت پر ٹیکس دہندگان بل ادا کرینگے، سب کچھ پوشیدہ۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کیلئے 2 لاکھ ٹن چینی کی درآمد کیلئے معاہدہ کو حتمی شکل دے دی ہے، حالانکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے سبسڈیوں کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔ حکومت نے اس معاہدے کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ ٹینڈر کس نے جیتا، یہ کب جاری کیا گیا اور کس قیمت پر ٹیکس دہندگان کو اس کا بل ادا کرنا ہوگا۔ وزارت قومی غذائی تحفظ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ پہلی کھیپ ستمبر کے آغاز میں پہنچنے والی ہے۔ تاہم، انہوں نے لینڈنگ کے اخراجات اور سبسڈی کی رقم کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ چینی کی درآمدات کا حکم ڈپٹی پرائم منسٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے دیا تھا۔ وزارت خوراک نے اس فیصلے سے خود کو الگ کر لیا ہے، جبکہ وزیراعظم ہاؤس نے دعویٰ کیا ہے کہ درآمد سے ’’قیمتیں متوازن ہوں گی اور عوام کو ریلیف ملے گا‘‘۔ تاہم، ٹینڈر کی شرائط یا آئی ایم ایف کی مخالفت شدہ سبسڈی کی رقم کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ جبکہ ایک اہلکار نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ سبسڈی 30 روپے فی کلو گرام سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان خاموشی سے کیے جانے والے انتظامات نے ایک ایسی معیشت میں شفافیت کے حوالے سے خطرات کو جنم دیا ہے جو آئی ایم ایف کی سخت نگرانی میں ہے، جہاں سبسڈیوں پر طویل عرصے سے عوامی مالیات کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے اسلام آباد کے ’’غذائی ایمرجنسی‘‘ کے جواز کو مسترد کرتے ہوئے یہ انتباہ کیا کہ اضافی سبسڈیز پاکستان کے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کو متاثر کر سکتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعرات کو حکومت نے نجی ملوں سے 1.9 ملین میٹرک ٹن چینی قبضے میں لے لی اور 18 مل مالکان کو ذخیرہ اندوزی کے الزام میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کسی بھی ضبطی کی تردید کی، اور سپلائی میں خرابی کو ’’انتظامی تدابیر میں تفاوت‘‘ کا نتیجہ قرار دیا، جبکہ وزیرِ غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے ذخیرہ اندوزوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قیمتوں کو 190 روپے فی کلوگرام تک پہنچا دیا ہے اور سخت کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ پاکستان نے اگست 2024 سے جنوری 2025 تک 757,597 میٹرک ٹن چینی برآمد کی جس کی مالیت 406.9 ملین ڈالر تھی۔ وزارتِ غذائی تحفظ نے کہا کہ یہ فیصلہ زائد اسٹاک کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اسی دوران، وزارت نے یہ بھی بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آئی، جس سے پیداوار 6.3 ملین ٹن کے مقابلے میں صرف 5.8 ملین ٹن رہی، جس کے باعث جنوری میں برآمدات کو اچانک روکنا پڑا۔ سندھ اور پنجاب کے ملرز نے اپنی اندرونی ملاقات میں حکومت کے ساتھ قیمتوں کے معاہدوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔