• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی جدید دنیا میں معاشی خوشحالی کی تعریف اب صرف صنعتی پیداوار، قدرتی وسائل یا زرعی پیداواری صلاحیت سے نہیں ہوتی ۔ اقوام عالم آج ڈیجیٹل تبدیلی، اختراع اور علمی معیشت کے اردگرد اپنے ترقیاتی اہداف کا ازسر نو تعین کر رہی ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت ڈیجیٹل معیشت عالمی جی ڈی پی کے 15 فیصد سے زیادہ ہے اور 2025ءتک اس کا شیئر بڑھ کر 24 فیصد متوقع ہے۔ یہ معیشت ان تمام شعبوں پر مشتمل ہے جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پر انحصار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے چین، ہندوستان اور ایسٹونیا جیسے ممالک نے گورننس کا نظام تبدیل کرنے، برآمدات کو فروغ دینے، بیروزگاری کو کم کرنے اور شفافیت کو بہتر بنانے کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی طاقت کا استعمال کیا ہے۔تاہم پاکستان نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ایک وسیع ہوتی ہوئی ڈیجیٹل تقسیم کے ساتھ 24 کروڑ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود معاشی میدان میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہت پیچھے ہے۔ جسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق ملک بھر میں 190 ملین سے زیادہ سیلولر صارفین اور تقریباً 130 ملین براڈ بینڈ صارفین موجود ہیں۔ اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی دستیابی کی باعث نوجوان نسل کی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اسکے باوجود پاکستان نیٹ ورک ریڈی نیس انڈیکس 2023 میں 131 ممالک میں سے 123 ویں نمبر پر ہے۔ اس سے ملک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، گورننس اور اختراعی ماحولیاتی نظام میں پائے جانے والے خلا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ امر قابل ذکرہے کہ پاکستان ڈیجیٹل پالیسی 2018، اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی (STZA) کا قیام اور مقامی اسٹارٹ اپس کے فروغ کیلئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ تاہم اس کیلئے واضح پالیسی، ہیومن ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری اور طویل المدتی سیاسی عزم کی ضرورت ہے تاکہ اس میدان میں پائیدار بنیادوں پر ترقی کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔ اس سلسلے میں تمام سرکاری محکموں کی ڈیجیٹلائزیشن ضروری ہے تاکہ کاروباری اداروں اور شہریوں کو سرکاری دفتروں کے چکر لگانے اور بدعنوان ملازمین سے نجات مل سکے۔ ٹیکس فائلنگ سے لے کر پبلک پروکیورمنٹ تک ہر شعبے کی ڈیجیٹلائزیشن سے عوامی ڈیٹا تک کھلی رسائی کے ذریعے شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح حکومتی سطح پر مالیاتی لین دین کو ڈیجیٹلائز کرکے بدعنوانی اور نااہلی کا راستہ روک کر کاروبار کرنے کے عمل کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت ٹیکس، تجارت اور صنعت میں ڈیجیٹل تبدیلی کو ترجیح دے کر غیر رسمی کاروباری سرگرمیوں کو دستاویزی معیشت کا حصہ بنا سکتی ہے۔ ان اقدامات سے ناصرف مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا ہو گا بلکہ حکومت موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید دباؤ ڈالے بغیر ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرکے ٹیکس محصولات کی وصولی بھی بہتر بنا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں اور ای کامرس ریگولیشن میں حکومت نے حال ہی میں کچھ اچھے اقدامات کئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی رفتارتیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں نچلی سطح پر صلاحیت بڑھانے کیلئے مضبوط پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ضروری ہے کیونکہ پاکستان کیلئے عالمی سطح پر مقابلہ کرنے، برآمدات بڑھانے اور اپنے معاشی اہداف کے حصول کیلئے ایک مضبوط اور ڈیجیٹل طور پر مربوط معیشت لازمی ہے۔ پاکستان کی آبادی چونکہ بنیادی طور پر نوجوان طبقے پر مشتمل ہے جس میں سے 60 فیصد سے زیادہ کی عمر 30 سال سے کم ہے، یہ نوجوان اگر ڈیجیٹل مہارتوں سے آراستہ ہوں تو پیداواری عمل میں جدت لا کر پیداوار میں اضافہ کرکے بیروزگاری کم کی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل طور پر خواندہ نوجوان فری لانسنگ، ریموٹ ورک اور آن لائن انٹرپینیورشپ کے ذریعے عالمی ڈیجیٹل سروسز مارکیٹ میں باآسانی اپنی جگہ بنا سکتے ہیںکہ ڈیجیٹل تربیت اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کے باوجود پاکستان کا شمار آن لائن فری لانس کام کیلئے سرفہرست چار ممالک میں ہوتا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن سے چھوٹے کاروبار اور مائیکرو انٹرپرائزز بالخصوص دیہی یا پسماندہ علاقوں کے کاروباری افراد ای کامرس پلیٹ فارمز کے ذریعے قومی اور عالمی منڈیوں سے جڑ سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ڈیٹا پروٹیکشن کے مضبوط قوانین اور نفاذ کے طریقہ کار کی عدم موجودگی صارفین اور کاروباروں کو ڈیجیٹل اکانومی میں اعتماد کے ساتھ شامل ہونے سے روکتی ہے۔ ایسے میں سازگار ریگولیٹری ماحول، ڈیجیٹل سیکیورٹی قوانین اور بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن سے پاکستان اپنی آئی ٹی برآمدات میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔پاکستان میں ڈیجیٹل بینکنگ اور بعض فنٹیک سلوشنز جیسے کہ موبائل والٹس اور برانچ لیس بینکنگ پہلے سے ہی غیر بینک شدہ آبادیوں کو رسمی مالیاتی نظام میں لانے میں مدد کر رہے ہیں۔ تاہم اس عمل کو مزید وسیع اور تیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کے دیہی اور پسماندہ علاقوں کیلئے معیاری معاشی خدمات تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے ڈیجیٹل ٹولز واحد قابل عمل، کم خرچ اور فوری حل پیش کرتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو معاشی میدان میں ڈیجٹلائزیشن کو فروغ دینے کیلئے شہری اور دیہی علاقوں کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے درمیان انٹرنیٹ تک رسائی میں فرق کم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 81 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 50 فیصد خواتین کے پاس موبائل فون ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو بجلی کی بار بار بندش، انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور فور جی یا فائیو جی کی محدود رسائی جیسی رکاوٹیں ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک سٹریٹجک ضرورت ہے جو اکیسویں صدی میں معاشی بحالی، روزگار کی تخلیق، سماجی شمولیت اور قومی سلامتی کیلئے اہم ہے۔

تازہ ترین