فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے وجود میں لائی جانے والی صہیونی ریاست اسرائیل نے برسوں سے محصور غزہ کے علاقے میں فلسطینی مسلمانوں کو پچھلے پونے دو سال سے جس درندگی وسفاکی اور قتل و غارت گری کا شکار بنا رکھا ہے، اس کے خلاف عالمی برادری کی جانب سے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صہیونی ریاست اب غزہ پر مکمل فوجی قبضے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے گزشتہ روز وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کا ایک ایسا مذموم منصوبہ منظور کر لیا جس کے تحت اسرائیلی فوج غزہ شہر کا مکمل طور پر کنٹرول سنبھالے گی۔ سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس سے قبل امریکی ٹی وی چینل ’فاکس نیوز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ہم پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ حماس کو غزہ سے نکال کر اپنی سلامتی یقینی بنائیں۔انہوں نے یہ مضحکہ خیز وضاحت بھی کی کہ ہم غزہ پر قبضہ نہیں صرف عسکری کنٹرول چاہتے ہیں۔نتین یاہو کے دفتر کے بیان کے مطابق جنگ کے اختتام کے لیے سیکیورٹی کابینہ نے پانچ اصول طے کیے ہیں جن میں حماس کا مکمل غیر مسلح کیا جانا، تمام مغویوں کی واپسی، غزہ کی عسکری صلاحیت کا خاتمہ، غزہ پر اسرائیلی سیکیورٹی کا کنٹرول ہونا اور ایسی متبادل سول انتظامیہ کا قیام ہے جس کا تعلق نہ حماس سے ہو اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی سے ہو۔یہ منصوبہ جس قدر شرانگیز ہے، اس کی بنا پر خود سابق اسرائیلی وزیر اعظم اور موجودہ اپوزیشن لیڈر یائر لاپید نے اس کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے اسرائیل کے لیے بھی تباہ کن قرار دیا ہے۔ ان کے بقول اس عمل کا نتیجہ یرغمالیوں اور جنگ میں شریک فوجیوں کی ہلاکت، اسرائیلی عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کے ضیاع اور سفارتی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا جواب بھرپور مزاحمت سے دیا جائے گا۔ صہیونی قیادت کی اس شرانگیزی کے خلاف کئی یورپی ملکوں نے اپنے فوری ردعمل میں اس کی شدید مذمت کی ہے۔آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی، نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں غزہ میں مزید بڑے فوجی آپریشن کے اسرائیلی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے پُر عزم اور متحد ہیں۔ ڈچ وزیرِ خارجہ کیسپر ویلڈ کیمپ نے اسرائیلی منصوبے کو قطعی غلط قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ڈچ حکومت نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ غزہ فلسطینیوں کا ہے جبکہ جرمن چانسلر فریڈرِک مرز نے اسرائیل کو جنگی سامان فراہم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائی کس طرح جائز مقاصد حاصل کرے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پچیس کروڑ پاکستانیوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیلی کابینہ کے منصوبے کو غزہ میں جاری انسانی بحران کو مزید ہولناک بنادینے اور خطے میں امن کے کسی بھی امکان کو ختم کر دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ المیے کی اصل وجوہات کی نشان دہی کرتے ہوئے اپنے بیان میں وزیر اعظم نے کہا کہ فلسطینی سر زمین پر اسرائیل کا قبضہ غیرقانونی ہے اور جب تک یہ قبضہ برقرار رہے گا، امن ایک خواب ہی رہے گا۔انہوں نے آزاد فلسطینی ریاست اور فلسطینیوں کے حق خودارادی کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری اسرائیل کی بلا جواز جارحیت کو روکنے ، بے گناہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے فوری مداخلت کرے۔ دوسری جانب غزہ کی صورت حال پر یواین سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے ۔ امریکہ کے سوا تمام ارکان نے اس کی حمایت کی ہے۔اسرائیل کی یہ اندھی امریکی حمایت نہایت افسوسناک اور صدر ٹرمپ کے عالمی امن کی علم برادری کے دعووں کے سراسر منافی ہے۔