پاکستان اس وقت عالمی سفارت کاری کی ایک ایسی نایاب پوزیشن پر کھڑا ہے جہاں بیک وقت واشنگٹن ، بیجنگ اور تہران کے درمیان باہمی تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہاں چین کے ساتھ سی پیک منصوبے کی رفتار میں تیزی کی اُمید بھی رکھی جارہی ہے۔ ایران کے ساتھ توانائی، سرحدی سلامتی میں ہم آہنگی بڑھ رہی ہے جبکہ ایران ، اسرائیل تنازع کے حل میں بھی پاکستان کی سفارت کاری کو اہمیت مل رہی ہے۔ امریکہ پہلی بار انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں واشنگٹن کو اس بات کا شدت سے احساس ہو چکا ہے کہ اگر دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچانا ہے تو خطے میں امن نہایت ضروری ہے۔ پاکستان پر امریکی ٹیرف کی کم ترین شرح نے پاکستانی برآمدات میں اضافے کے نئے امکانات پیدا کئے ہیں اور بھارت پر پچاس فی صد ٹیرف اور مزید اضافے کی امریکی دھمکی ایسے فیصلے ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا بارے تبدیل شدہ پالیسی کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر پاکستان مستقبل میں اپنی متوازن خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو عالمی سفارت کاری کا ایک کلیدی کھلاڑی بن کر ابھرے گا۔ اس حوالے سے آنے والے چند دن اورمہینے نہایت اہم ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، افغانستان کی صورت حال، روس یوکرائن جنگ کا انجام، غزہ ، مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکی صدر ٹرمپ کی دلچسپی اور کردار یہ سب پاکستان بارے فیصلوں پر اثر انداز ہوگا۔واشنگٹن ،اسلام آباد کو چین اور امریکہ کے درمیان ایک مضبوط پل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس دوران پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کی کوششوں میں بھی کوئی بڑی پیش رفت ممکن ہے۔ پاکستان موجودہ عالمی صورت حال میں اپنے کارڈ جتنے بہتر انداز میں کھیلے گا نتائج اتنے ہی اچھے برآمد ہوں گے۔ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ پاکستان اپنے اہم ترین مفادات کے حصول کیلئے دو بڑی سپر پاورز کو عالمی اقتصادی استحکام و امن کی شرائط پر خطے میں یکساں مفادات کی کوئی ایسی پیشکش کرے کہ جس سے سی پیک منصوبہ ورلڈ گیم چینجر بن کر ابھرے اور امریکہ پاکستان کی قیمتی معدنیات کے ذخائر سے کھربوں ڈالر کمائے۔ وسیع تر امکانات کا جائزہ لیا جائے تو سی پیک منصوبے میں افغانستان، وسط ایشیائی ممالک کی شمولیت مستقبل میں روس کو بھی اس منصوبے کا شراکت دار بنا سکتی ہے۔ جب صدر ٹرمپ کا ایجنڈا جنگ نہیں تجارت ہی ٹھہرا ہے تو پھر نیکی اور پوچھ پوچھ کیوں؟ باہمی مفادات کے لئے ایسے امکانات کو کسی صورت رد نہیں کیاجا سکتا۔ پاکستان اس وقت عالمی سیاست کے ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف خطرات و خدشات ہیں تو دوسری طرف آگے بڑھنے کے سنہری مواقع بھی موجودہیں۔ فیلڈ مارشل کی صدر ٹرمپ سے ملاقات اور حالیہ دورہ امریکہ اپنے مثبت اشاریئے ظاہر کررہا ہے۔ کیا پاکستان کا موجودہ نظام اس سنہرے موقع کو پائیدار کامیابی میں بدل پائے گا یا یہ محض ماضی کی طرح چائے کی پیالی میں طوفان ہے؟۔ جواب ایک ہی ہے ۔اندرونی سیاسی استحکام، وزیراعظم شہباز شریف کا جشن آزادی و معرکہ حق کی مرکزی تقریب میں عسکری قیادت کی موجودگی میں تمام سیاسی قوتوں کو میثاق استحکام پاکستان کی پیشکش کرنا اس بات کا گرین سگنل ہے کہ مقتدرہ نو مئی کے مقدمات میں ملوث سیاسی کرداروں کے علاوہ ہر کسی سے بات چیت کرنے کو تیار ہے۔ یاد رہے کہ ”میثاق استحکام پاکستان“ کا ابتدائی تذکرہ انہی کالموں میں کیا جاتا رہا ہے۔ دیر آید درست آید۔ یہی معرکہ حق کی اصل فتح ہے۔
عالمی سیاست کی بساط پر فیلڈ مارشل عاصم منیرکی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات ایک ایسی اہم پیش رفت ہے جس نے واشنگٹن سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے ایوانوں تک ہلچل مچا رکھی ہے۔ دنیا کو یہ احساس ہوچکاہے کہ جنوبی ایشیا بارود کا ڈھیرہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پاکستان کے ذمے دارانہ کردار کو تسلیم کررہی ہے۔ مودی سرکار اپنی ہٹ دھرمی ،انتہا پسندانہ سوچ کے باعث اس تبدیل شدہ عالمی پیش رفت کو کسی صورت قبول کرنے پر تیار نہیں۔ انہی خدشات کی بنیاد پر پاکستان کو بھارت سے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی طرح اچانک کوئی اور بڑی حماقت کا خدشہ ہے تاکہ دنیا کو ایک نئے بحران میں مبتلا کرکے پاکستان سے اس کی توجہ ہٹائی جاسکے۔
بدلتے عالمی حالات و واقعات کے تجزیئے سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان، امریکہ ، چین کا ایک نیا اقتصادی اتحاد جنم لے رہا ہے۔ بھارت کے بہ امرمجبوری اس اتحاد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہونے کے امکانات نظر آتے ہیں۔ بھارتی پراکسیز کو دہشت گرد گروپ قرار دینا پہلا قدم ہے۔ اگلے قدم پر بھارت کو ناپسندیدہ ملک یا پھر دہشت گرد ریاست قرار دینا بھی خارج ازامکا ن نہیں۔ اگر جنگ نہیں تو تجارت سے ہی امن کی یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوگئیں تو امن کے نوبل پرائز کے حق دار ایک نہیں دو ہوں گے۔