اسلام آباد( ناصر چشتی ) قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی اپوزیشن کے اعتراض کے باوجود کثرت رائے سے انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2025منظور کرلیااس موقع پر اپوزیشن کے ارکان نے نعرہ بازی کی اور واک آؤٹ کر گئے جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ دہشت گردی سے نجات کے لئے ہمیں سیاست سے بالاتر ہوکر قانون سازی کرنا ہوگی۔منگل کو ایوان بالا میں وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے تحریک پیش کی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کرنے کا بل قومی اسمبلی سے منظور کردہ صورت میں زیر بحث لانے کی اجازت دی جائے، اس پر اپوزیشن کی جانب سے اعتراض کیاگیا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ محرم علی کیس میں، میں بھی اس کی پروسیڈنگ کا حصہ رہا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد اپوزیشن کی مشاورت سے یہ ترمیم کی گئی تھی۔آرٹیکل 10 میں نظر بندی کے قانون کو واضح کیا گیا ہے اگر یہ 1973 کے آئین سے متصادم ہوا تو میں سر تسلیم خم کروں گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ان آئینی ضمانتوں کے مطابق ہے تو ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے،ان دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار فورسز کو تحفظ دینا اس پارلیمان کا کام ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ صرف افواج کے زیر استعمال نہیں ہوگا۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ افواج کو سول انتظامیہ کی مدد کے کئےطلب کرسکتی ہیں، فوج وہیں پر اس ترمیم کا حق استعمال کرسکے گی، صوبوں میں استعمال ہوگی تو اس کی صوبائی حکومتیں منظوری دیں گے۔یہ نظر بندی یا تحویل تین ماہ کے لئے ہوگی۔کسی کے بارے میں مستند اطلاعات ہیں کہ سلامتی،امن وامان ریاست کی خودمختاری کے حوالے سے خطرات اور افراتفری کی صورت میں 90 دن کے لئے تحویل میں لے لیا جائے گا۔245 کے احکامات کو چیلنج کرنے کے لئے وفاقی یا صوبائی سطح پر ریویو بورڈ ہوں گے وہاں یہ تحویل چیلنج ہوگی اور اس کا فیصلہ ہونا ہے کہ اس میں توسیع یا خاتمہ کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ حفاظتی تحویل کے لیے شواہد اور ٹھوس وجوہات ہوں۔اس کی انکوائری کرنی ہے لاپتہ یا غائب نہیں کرنا، جبری گمشدگیوں کا خاتمہ مقصد ہے۔احد چیمہ کو اٹھایا گیا سواتین سال جیل میں رکھا۔