انصار عباسی
اسلام آباد :…آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے متعلق ایک سخت آڈٹ رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ادارے نے اپنے چیئرمین اور کمشنرز کو 26؍ کروڑ 70؍ لاکھ روپے سے زائد کی تنخواہیں، مراعات اور الاؤنسز وزارتِ خزانہ کی قانوناً لازمی منظوری کے بغیر ادا کیے، جو رولز آف بزنس اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ یہ نتائج مالی سال 24-2023ء کے آڈٹ کا حصہ ہیں اور ان میں غیر مجاز اخراجات کی دو بڑی اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پہلی مد میں 15؍ کروڑ 66؍ لاکھ روپے ’’تنخواہوں، الاؤنسز اور دیگر مراعات‘‘ کی مد میں ادا کیے گئے جبکہ دوسری مد میں ایک کروڑ 10؍ لاکھ 90؍ ہزار روپے ’’آرام و تفریح‘‘ کے طور پر چیئرمین، کمشنرز اور دیگر ملازمین کو دیے گئے۔ آڈٹ حکام نے ان ادائیگیوں کو ’’بے قاعدہ اور غیر مجاز‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ادائیگیاں واضح طور پر سرکاری قواعد کی خلاف ورزی ہیں اور ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ رپورٹ میں وزارتِ خزانہ کی ایک واضح ہدایت (آفس میمو مورخہ 23؍ جنوری 2024ء) کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین بشمول خودمختار، نیم خودمختار اور کارپوریٹ اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز اور ان میں ترمیم کیلئے وزارتِ خزانہ کی پیشگی منظوری لازمی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ رولز آف بزنس 1973ء کے قاعدہ 12(1)(h) کے تحت کوئی بھی محکمہ وزارتِ خزانہ کے ساتھ مشاورت کے بغیر ایسے مالی فیصلے نہیں کر سکتا۔ آڈٹ میں 2016ء کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ رولز آف بزنس حکومت پر لازم ہیں اور ان کی خلاف ورزی میں جاری کردہ کوئی بھی حکم کالعدم ہے۔ ایس ای سی پی انتظامیہ کا موقف ہے کہ کمشنرز کو وفاقی گورنمنٹ نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ایکٹ 1997ء کی شق 5؍ کے تحت مقرر کیا ہے اور شق 5(4) کے تحت چیئرمین اور کمشنرز کو وہ تنخواہیں اور الاؤنسز دیے جانے ہیں جو پالیسی بورڈ طے کرے۔ وزارتِ خزانہ کی ہدایات اُن اداروں کے ملازمین پر لاگو ہوتی ہیں جنہوں نے وفاقی حکومت کے بنیادی تنخواہ اسکیل کو مکمل طور پر اپنایا ہو، جبکہ ایس ای سی پی نے اپنے علیحدہ تنخواہ اسکیل بنائے ہیں جنہیں کمیشن اور پالیسی بورڈ سے منظوری درکار ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ آفس میمو ایس ای سی پی کے ملازمین پر لاگو نہیں ہوتا۔ تاہم، آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے اس جواز کو مسترد کر دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ چونکہ ایس ای سی پی وزارتِ خزانہ کے ماتحت ایک خودمختار ادارہ ہے، لہٰذا رولز آف بزنس لازماً اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، ایس ای سی پی کی تشریح غلط ہے اور وزارتِ خزانہ کی پیشگی منظوری ناگزیر قانونی تقاضا ہے، چاہے اندرونی طور پر علیحدہ پے اسکیل ہی کیوں نہ ہوں۔ آڈٹ نے فوری طور پر اس عمل کو بند کرنے کی سفارش کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اعلیٰ انتظامیہ کی پوری تنخواہ ڈھانچہ اور تمام مراعات وفاقی حکومت کو وزارتِ خزانہ کے ذریعے بھیجی جائیں تاکہ بعد ازاں منظوری لے کر ان بے قاعدہ اخراجات کو ریگولرائز کیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق، قابل ذکر بات یہ ہے کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر (پی اے او) اور آڈٹ ہونے والے ادارے کو باقاعدہ مدعو کیا گیا تھا کہ وہ ان بے ضابطگیوں پر 14؍ جنوری اور 6؍ فروری کو ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کی میٹنگ میں وضاحت کریں، لیکن رپورٹ کی تیاری تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ ایس ای سی پی انتظامیہ نے سنگین الزامات پر دھیان نہیں دیا۔ یہ آڈٹ پیرا ملک کے سب سے بڑے کارپوریٹ ریگولیٹری ادارے میں گورننس اور مالی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔ حال ہی میں دی نیوز نے خبر دی تھی کہ معیشت سے جڑی وزارت سے وابستہ ایک سرکاری کمپنی (اسٹیٹ آپریٹیڈ انٹرپرائز) کے 2022ء میں مقرر کردہ چیف ایگزیکٹو افسر ماہانہ 5 لاکھ روپے تنخواہ کے باوجود ’’قانونی سقم‘‘ کا فائدہ اٹھا کر بھاری مراعات لیتے رہے۔ اس کمپنی کے بورڈ (جس نے ان کی تقرری کی سفارش کی تھی) نے انہیں الاؤنسز، بونس اور دیگر فوائد دیے جو مجموعی طور پر 35؍ کروڑ 50؍ لاکھ روپے بنتے ہیں۔