• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست کامنظر اگر کوئی ہالی وڈ یا بالی وڈ ڈائریکٹر دیکھ لے تو حیران رہ جائے کہ اتنی پیچیدہ اور ڈرامائی کہانی مفت میں کیسے چل رہی ہے؟ کبھی انقلاب کے نعرے لگتے ہیں، کبھی سازش کی گھنٹیاں بجتی ہیں، کبھی ولن اور ہیرو ایک دوسرے پر جملے کستے ہیں، پھر اچانک بیک اسٹیج جا کر مذاکرات کے نام پر چائے کی چسکیاں لیتے ہیں ، آج کی کہانی کے مرکزی کردار اب بھی قیدی نمبر804 ہی ہیں جو کبھی کنگ خان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آج ولن کے روپ میں مولا جٹ بنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے مقابل اسٹیبلشمنٹ ایک گمنام ہیرو کی طرح اپنا مسلمہ کردارحسب سابق ”ذمہ داری“ سے نبھا رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست کو ایک سنسنی خیز فلم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ گستاخیاں تے معافیاں نامی یہ فلم نہ کبھی پرانی ہوتی ہے نہ اس کے کردار بدلتے ہیں، کبھی ایک ہیرو بن جاتا ہے تو وہی کردار دوسرے دن ولن کے روپ میں دکھائی دیتا ہے۔ مناظر بدل جاتے ہیں ڈائیلاگ وہی رہتے ہیں۔ یہ ہر زمانے و نسل کی پسندیدہ سُپرہٹ فلم ہے جو گزشتہ دہائیوں سے پردہ اسکرین پر چھائی ہوئی ہے۔ کل کے کنگ خان آج کے ولن بانی پی ٹی آئی کی نفسیات سمجھے بغیر اس فلم کی کہانی سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو۔ ان کی سوچ کو پانے کیلئے اگر آج ارسطو اور افلاطون بھی ہوتے تو چکرا جاتے۔ موصوف خود کو ایک ایسا ”کنگ کانگ“ سمجھتے ہیں جو کبھی ہار نہیں مانتا۔ تضادات سے بھرپور یہ ”سپر مین“ خود اپنے ہی بیانیے سے لڑ رہے ہیں۔ اگر کہیں معافی تلافی کی کوئی گنجائش پیدا بھی ہوتی دکھائی دے رہی ہو تو موصوف پر اعتبار کون کرے؟ فلم کے ہیرو نما ولن کی گنڈاسے جیسی زبان، ماضی کے غلطان اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ بارے ان کے ذہنی رجحانات خصوصاً نو مئی کے واقعات کے بعد حالات نے فلم کے مرکزی کرداروں کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لاکھڑا کیا ہے۔ ماضی میں گستاخیاں کرنے والے معافیاں مانگ کراقتدار میں آئے تو وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جن سویلینز کو رسوا کرکے اقتدار سے نکالا گیا تھا انہوں نے تمام تر ”گستاخیوں“ کے باوجود ایسی کوئی سنگین غلطی نہیں کی تھی کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے قابل نہ رہیں۔ شہید بی بی بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کا میثاق جمہوریت کی صورت اس بات پر مکمل اتفاق ہو جانا کہ جیسے بھی کٹھن حالات ہوںلٹی پٹی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ تب سے اب تک یہی واحد بڑی سیاسی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کنگ خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم قرار پائے جنہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا مگر انہیں راس آگئی،یہ تاریخی مقبولیت اب انہیں رونے دیتی ہے نہ ہنسنے ورنہ تو کوئی ایسی خوبی نہیںکہ وہ اقتدار کے منصب پر دوبارہ بٹھائے جائیں۔ تضادات سے بھرپور شخصیت کے کریڈٹ پر پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا، احتجاج، توڑ پھوڑ، تشدد کی سیاست اور سب سے بڑھ کر نو مئی جیسے سنگین واقعات کے علاوہ کیا ہے؟ آج وہ انہی گستاخیوں پر معافیاں مانگنےکیلئے طاقت وروں سے براہ راست مذاکرات کی ایسی خواہش رکھتے ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جن پر حکومت گرانے کی سازش کے الزامات لگائے گئے ہوں۔ وہ ان گستاخیوں کو بھول جائیں۔ تضادات سے بھرپور اس فلم کا کوئی سر پیر نہیں۔ ڈائیلاگ ایسے کہ آنکھیں کھولیں تو سب احتساب کے نام پر تختہ دار پر لٹکا دیئے جائیں۔ حد تو یہ ہے کہ جس حکومت کو امپورٹڈ، جعلی قرار دیتے ہیں اسی سے رابطہ کرنے پر مجبور ہیں۔ بڑوں نے گستاخیوں کی معافی بارے دو ٹوک الفاظ میں وضاحت تو کردی ہے کہ اللّٰہ جانے یا قانون۔ وہ تو صرف قوم کی طرف سے دائر کئے گئے نو مئی کے مقدمے میں انصاف چاہتے ہیں۔ جہاں تک اپنے پاؤں پر خود سے کلہاڑا مارنے والی بات ہے تو وہ کسر سُپرمین نے محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کرکے پوری کردی ۔ یہ وہی اچکزئی صاحب ہیں جن کے بارے میں ایک جلسے عام سے خطاب کے دوران کہا گیا تھا ”اچھا! اچکزئی کا ڈرامہ سنو، بڑی چادر پہنی ہوئی ہے، ایسے کرکے(منہ پر پی ٹی آئی کا دوپٹہ لپیٹنے کا ایکشن کرتے ہوئے) جیسے بڑا کوئی دیسی آدمی لگ رہا ہو۔ ہم بھی، میں بھی، تھوڑی دیر کیلئے پاگل بن گیا، اچکزئی سے۔ میں بھی سمجھا کہ کوئی بڑا ملنگ آدمی ہے بعد میں پتہ چلا، آٹھ کے آٹھ رشتے دار، گھسا دیئے ہیں اسمبلی میں۔ بھائی کو گورنر بنا دیا۔“ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے چابی والے سپرمین کس حد تک مایوس ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنی پارٹی میں کوئی ایسا قابل لیڈر نہیں ملا جسے وہ اس منصب پر بٹھا سکیں۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ عوامی طاقت رکھنے کے دعوے دار لیڈر کی سوچ کیا ہے؟ اعظم سواتی قائد حزب اختلاف سینیٹ ، مفاہمت کی علامت ، محمود خان اچکزئی اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی، مزاحمت کا استعارہ، فیصلہ کرنے والے نے یہ نہیں سوچا کہ پارٹی قائدین کیا صرف باجا بجانے کو رہ گئے ہیں۔ اطلاعات یہی ہیں کہ پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی نے سُپرمین کے فیصلے مسترد کرتے ہوئے وچلے بندے کے ذریعے اڈیالہ جیل پیغام بھیجا ہے کہ کچھ ہمارے پلے بھی رہنے دیں۔ محمود خان اچکزئی کی نامزدگی بارے حیران کردینے والے فیصلے نے ایک افلاطونی سوال اٹھایا ہے کہ کہیں یہ بانی صاحب کا ”بلوچستان کارڈ “ تو نہیں ، فلم گستاخیاں تے معافیاں کے ڈائریکٹرز مریض کی ہسٹری کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دائمی مرض لاعلاج ہوچکا ہے۔

تازہ ترین