• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت کئی برسوں کے عدم استحکام کے بعد بتدریج بحالی کی جانب گامزن ہے۔ مالی سال 25-2024 ءمیں بجٹ خسارہ گزشتہ سال کی نسبت جی ڈی پی کے مقابلے میں 6.8فیصد سے کم ہو کر 5.4فیصد پر آ گیا ہے جبکہ بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے جس سے حکومت کو مالیاتی استحکام میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کا کردار بھی اہم ہے جنہوں نے بہتر مالیاتی انتظام کا مظاہرہ کرتے ہوئے 921 ارب روپے بچا کر اس بہتری میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالیاتی استحکام کیلئے کی جانیوالی کوششوں کے نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اب ہمیں طویل مدتی مالیاتی استحکام کیلئے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ماضی میں پاکستان کیلئے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی ایک اہم مسئلہ رہی ہے۔ علاوہ ازیں ان قرضوںپر سود در سود کی ادائیگی سے بھی قومی وسائل پر دبائو میں اضافہ رہا ہے جسکی وجہ سے حکومتوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی، انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت پر خرچ کیلئے وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس وقت بھی حالات بہت زیادہ موافق نہیں اور حکومت کو مالیاتی ڈسپلن برقرار رکھنے کیلئے کفایت شعاری کی پالیسی پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طویل مدتی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے زیادہ سے زیادہ قومی وسائل مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کیا جا سکے۔

حکومت کیلئے اس وقت سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ 2.1 بلین ڈالر سرپلس ہے اور یہ گزشتہ 14 سال میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اس کامیابی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر نے اہم کردار ادا کیا ہے جو گزشتہ مالی سال میں 26 فیصد اضافے سے 38.8 ارب ڈالر رہیں۔ تاہم دوسری طرف اشیا اور خدمات میں مسلسل تجارتی خسارہ ایک ابھرتے ہوئے معاشی خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ اگر اس پر فوری قابو پانےکیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو اس سے ملک کے معاشی استحکام کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے۔ اس خسارے کو کم کرنے کیلئے ٹیکسٹائل، آئی ٹی اور زراعت جیسے اہم شعبوں میں ویلیو ایڈیشن کی حوصلہ افزائی کرنیوالی پالیسیوں کے ذریعے برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے امریکہ کی طرف سے انڈیا پر عائد کئے جانیوالے 50 فیصد ٹیرف نے ہمیں یہ سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ ہم امریکی مارکیٹ میں انڈیا کا زیادہ سے زیادہ شیئر حاصل کرکے دو طرفہ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی برآمدات میں فوری اضافہ کر سکتے ہیں۔

معاشی استحکام کے سبب حاصل ہونے والے ثمرات کے نتیجے میں افراط زر بھی تیزی سے کم ہو کر 4.5 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے جس سے عام صارفین اور کاروباری طبقے کو یکساں فائدہ ہوا ہے۔ تاہم اس حوالے سے مانیٹری پالیسی کو لچکدار بناتے ہوئے انٹرسٹ ریٹ کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر لانےکیلئے مزید کم کرکے سنگل ڈیجٹ تک لانے کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری طبقے کیلئے بھی قرض کی دستیابی آسان بنائی جا سکے۔ اس طرح نہ صرف انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی بلکہ صارفین کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہو گا اور معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے حکومت کو محصولات میں اضافے سے مزید وسائل میسر آئیں گے۔

اگرچہ قومی آمدنی بڑھانےکیلئے محصولات میں اضافہ ضروری ہے لیکن یہ ہدف ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کئے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس کیلئے حکومت کو ٹیکس کا نظام مزید شفاف اور منصفانہ بناتے ہوئے ٹیکس ادا نہ کرنے والے شعبوں کو دستاویزی معیشت کا حصہ بناناچاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے اور ان پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے انہیں ریلیف دینے کی ضرورت ہے ۔

علاوہ ازیں برآمدات بڑھانےکیلئے ایکسپورٹ انڈسٹری کی خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہر سیکٹر کا الگ الگ تجزیہ کرکے حکمت عملی بنائی جائے کہ ان کی پیداواری لاگت کو کیسے کم کرکے عالمی سطح پر مسابقت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل، فرنیچر اور آئی ٹی سمیت تمام برآمدی شعبوں کے سب سیکٹرز کے حوالے سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں بھی برآمدات کو مزید بڑھایا جا سکے۔ اسی طرح سی پیک کے تحت چین سے آنے والے سرمایہ کاروں کو سکیورٹی، محصولات کی وصولی کے نظام، روپے کی قدر میں کمی اور پاکستان میں کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع کو ڈالر کی شکل میں واپس اپنے ملک منتقل کرنے کے حوالے سے درپیش مسائل حل کرنابھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم مسئلہ بیوروکریسی کا سرخ فیتہ ہے جسکی وجہ سے بہت سے کاروباری معاملات بیجا تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے ون ونڈو سنٹر کا قیام ہوناچاہئے کیونکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مختلف محکموں سے متعلقہ امور نمٹانے میں طویل انتظار کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ آغاز میں ہی مایوسی کا شکار ہو کر یہاں سرمایہ کاری کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے پہلے مرحلے میں بڑی چینی کمپنیوں کے بڑی پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کروائے جا سکتے ہیں جس سے ناصرف دوطرفہ کاروباری تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ چینی کمپنیوں کو پاکستان میں کاروبار کرنے کے حوالے سے درپیش مسائل کو بھی خاطر خواہ حد تک کم کیا جا سکے گا۔

تازہ ترین