کراچی ( جنگ نیوز) امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کی منسوخی کے اسباب و علل کیا رہے ہوں گے۔
اس حوالے سے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ باربارکھلے عام اور بھرپور طریقے سے یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان اور بھارت کےمابین فوجی تنازعہ ہم نے حل کرایا یہ معاملہ اتناسادہ نہیں تھا یہ 75 سال پرانا تنازع ہے اور اس سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے جتنا ٹرمپ اسے بنا کر دکھا رہے تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی ٹرمپ کے رویئے پرصبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے لگے۔
17 جون کو ایک فون کال میں انہوں نےپھر سے یہ معاملہ اٹھایا اور بتایا کہ انہیں یہ فوجی کشیدگی ختم کرنے پر کتنا فخر ہے انہوں نے اس بات کا تذکرہ بھی کیا کہ پاکستان انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے جارہا ہے یہ وہ اعزاز ہے جس کے حصول کےلیے وہ کھلے عام کوششیں کررہے تھے جو لوگ اس فون کال کے بارے میں جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس تذکرے کا مقصد یہ تھا کہ مودی بھی ایسا ہی کریں۔
اس موقع پر مودی کی تیوریاں چڑ ھ گئیں اور انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ بندی سے امریکا کا کوئی تعلق نہیں اور یہ پاکستان اور بھارت نے براہ راست سیٹل کیا ہے۔
ٹرمپ نے مودی کے تبصرے کو نظرانداز کرڈالا لیکن اس سے اختلاف ہوگیا اور یوں مودی نے نوبل انعام کے حوالے سے کوئی بھی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ عمل تھا جس نے دونوں رہنمائوں کےمابین تعلقات کار کو تلخ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اچھا پھر یہ تنازع بھی ایک ایسے وقت میں ہوا جب پس منظر میں تجارتی مذاکرات چل رہے تھے جو کہ بھارت اور امریکا دونوں کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ اس سب کے نتائج یہ ہیں کہ بھارت امریکا کے دشمنوں بیجنگ اور ماسکو کے قریب ہورہا ہے اور مودی اب صدر شی اور صدر پوٹن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
اس ضمن میں اندر کی بات جاننے کےلیے نیویارک ٹائمزکے صحافیوں نے نئی دہلی اورواشنگٹن میں درجنوں لوگوں سے انٹرویو کیا ہے۔ بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا مودی سے تقاضا سیاسی نان اسٹارٹر ہے کیونکہ بالفرض اگر مودی جنگ بندی کےلیے امریکی دبائو کی کہانی مان جاتے ہیں تو اس کی بھاری قیمت انہیں داخلی سیاست میں چکانی پڑے گی، مودی کے طاقتور شخصیت ہونے کی شناخت کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے کتنے سخت ہیں۔ نوبل انعام تو چھوڑیں صرف یہ مان جانا کہ ٹرمپ کا جنگ بندی میں کردار تھا ایک طرح سے ہتھیار ڈالنے کے مترادف تصور ہوگا۔ بھارت امریکا کشیدگی کی ایک اور وجہ تارکین وطن کے حوالے ٹرمپ حکومت کی کارروائیوں سے بھارت میں پیدا ہونے والے جذبات ہیں۔
امریکی حکومت نے بھارتی طلبہ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے جس سے بھارتیوں کو ایک ناگوار حیرانی ہوتی ہے۔ یہ کال، جو 35 منٹ تک جاری رہی، اُس وقت ہوئی جب مسٹر ٹرمپ کینیڈا میں گروپ آف 7 صنعتی ممالک کی کانفرنس سے وقت سے پہلے نکلنے کے بعد ایئر فورس ون پر واشنگٹن واپس جا رہے تھے۔ اس اجلاس میں مسٹر مودی بھی شریک تھے۔مسٹر مودی نے مسٹر ٹرمپ کی یہ دعوت مسترد کر دی کہ وہ وطن واپسی سے پہلے واشنگٹن رکیں۔
مودی کے حکام اس بات پر سخت برہم تھے کہ مسٹر ٹرمپ شاید اُن کے رہنما کو پاکستانی آرمی چیف کے ساتھ مصافحے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں، جنہیں اسی وقت وائٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا۔ ایک سینئر بھارتی اہلکار کے مطابق یہ ایک اور واضح اشارہ تھا کہ مسٹر ٹرمپ کو اس معاملے کی پیچیدگی اور اس کے پس منظر و حساسیت کی پرواہ نہیں۔بعد میں ایک اور کال کا اہتمام کرنے کی بات ہوئی تاکہ جزوی تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔ لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان اعتماد کمزور پڑنے کے باعث بھارتی حکام محتاط تھے کہ مسٹر مودی کو ٹرمپ کے ساتھ فون پر نہ ڈالا جائے۔
ایک سینئر بھارتی اہلکار نے کہا کہ بھارتی حکام کو یہ خدشہ تھا کہ ٹرمپ کال پر طے پانے والے کسی بھی معاہدے کی پرواہ کیے بغیر اپنی مرضی کی بات ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کر دیں گے۔ٹرمپ، جو ٹیرف پر مذاکرات سے سخت مایوس تھے، نے مودی سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، دو ایسے افراد کے مطابق جنہیں ان بات چیت کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا مگر انہیں عوامی سطح پر اس پر گفتگو کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے مطابق، مودی نے ان درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان، محترمہ کیلی نے اس بات کی تردید کی کہ ٹرمپ نے رابطے کی کوئی کوشش کی تھی۔ اضافی 25 فیصد ٹیرف کے نفاذ سے صرف چند دن پہلے، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے قریبی مشیر سرجیو گور کو بھارت میں سفیر نامزد کر رہے ہیں، ساتھ ہی خطے کے لیے خصوصی ایلچی کا اضافی عہدہ بھی دیں گے۔
بھارتی حکام اس نامزدگی پر الجھن کا شکار تھے — ایک طرف تو سرجیو گور ٹرمپ کے قریب سمجھے جاتے تھے، مگر دوسری طرف وہ اس بات پر نالاں تھے کہ ’’علاقائی ایلچی‘‘ کے عہدے میں بھارت کو پاکستان کے ساتھ ایک ہی زمرے میں رکھ دیا گیا۔