لاہور(آصف محمود بٹ ) چین دوسری جنگ عظیم میں جاپانی جارحیت کے خلاف عوامی جنگ اور عالمی سطح پر فاشزم کے خاتمے کی 80ویں سالگرہ کی تقریبات شاندار پیمانے پر منا رہا ہے، جسے حالیہ برسوں کی سب سے بڑی سفارتی سرگرمی قرار دیا جا رہا ہے۔3ستمبر کو ہونے والی ان تقریبات میں پیوٹن، شہباز شریف، کم جونگ اُن، مسعود پزشکیان سمیت دنیا کے 26 ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ رہنما شریک ہوں گے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا نام مہمانوں کی فہرست میں شامل نہیں ان کی غیر حاضری نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے، جسے خطے اور عالمی سیاست کے تناظر میں خاص اہمیت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ چین تقریبات کو عسکریت پسندی اور یکطرفہ پالیسیوں کے خلاف عالمی اتحاد کی علامت کے طور پر پیش کر رہا۔
ماہرین، اعلیٰ سفارتی ذرائع نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ شریک رہنماؤں کی فہرست اس بات کا ثبوت ہے کہ چین نے اپنی سفارت کاری کو ایشیا، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکا تک وسیع کر دیا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن، شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن، کمبوڈیا کے بادشاہ نورودوم سیہامونی، ویتنام کے صدر تو لام، لاؤس کے صدر اور جنرل سیکرٹری تھونگ لون سسولیتھ، انڈونیشیا کے نو منتخب صدر پرابوو سبینتو، ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم اور منگولیا کے صدر اوخنا خورلسوخ تقریب میں شریک ہوں گے۔
جنوبی ایشیا سے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، نیپال کے وزیراعظم پُشپ کمال دہل پرچنڈا اور مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے بھی اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے، جو چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو نمایاں کرتی ہے۔ وسطی ایشیا سے قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف، ازبکستان کے صدر شوکت مرزیایوف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، کرغزستان کے صدر صادیر ژاپاروف اور ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف بیجنگ پہنچ چکے ہیں۔
تقریب میں دیگر خطوں سے بھی متعدد سربراہان شریک ہیں، جن میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو، آذربائیجان کے صدر الهام علییف، آرمینیا کے وزیراعظم نیکول پاشینیان، ایران کے صدر مسعود پزشکیان، کانگو کے صدر ڈینس ساسو نگوسو، زمبابوے کے صدر ایمرسن مننگاگوا، سربیا کے صدر الیگزینڈر ووچچ، سلوواکیہ کے وزیراعظم رابرٹ فیکو، کیوبا کے صدر میگوئل ڈایاز کینل (جو کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سیکرٹری بھی ہیں) اور میانمار کے قائم مقام صدر مینت سوی شامل ہیں۔