• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہم شخصیات کے جیتے جاگتے انٹرویوز

مصنّف: الطاف حسن قریشی

ترتیب و تدوین: ایقان حسن قریشی

صفحات: 488، قیمت: 3000 روپے

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔

فون نمبر:0515101 - 0300

الطاف حسن قریشی کا شمار صحافت کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی پوری زندگی لکھنے پڑھنے میں گزار دی اور اب بسترِ علالت سے بھی یہ کام جاری ہے۔ اُنھیں اپنی طویل صحافتی زندگی میں بے شمار اہم شخصیات سے ملنے اور اُن سے گفتگو کے مواقع میسّر آئے۔وہ اِن ملاقاتوں یا بات چیت کا احوال قلم بند بھی کرتے رہے اور یوں عام افراد بھی گویا اِن نشستوں میں شریک ہوگئے۔ 

الطاف حسن قریشی کے اِن انٹرویوز کا پہلا مجموعہ 1963ء میں’’ملاقاتیں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا، جس میں 16 انٹرویوز شامل تھے، جب کہ اِسی نوعیت کا دوسرا مجموعہ’’ ملاقاتیں کیا کیا‘‘ 2015ء میں منظرِ عام پر آیا، جس میں 23 شخصیات کے انٹرویوز شامل کیے گئے تھے۔ اب اِن انٹرویوز کو زمانی اعتبار سے مرتّب کیا جار ہا ہے تاکہ قارئین اُن ادوار میں ہونے والے ذہنی، فکری، ثقافتی اور سیاسی تغیّرات سے آگہی حاصل کرسکیں۔ 

زیرِ نظر مجموعہ اِسی سلسلے کی کڑی ہے، جس میں 30شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ سلسلہ چار جِلدوں تک جائے گا، جن میں مجموعی طور پر 120انٹرویوز شامل ہوں گے۔ اِس مجموعے میں جسٹس ایس اے رحمٰن، ڈاکٹر سیّد محمّد عبداللہ، غلام رسول مہر، چوہدری نذیر احمد خاں، ڈاکٹر مِس خدیجہ فیروز الدّین، مولانا صلاح الدّین احمد، حکیم نیّر واسطی، ڈاکٹر عبدالرحمٰن بارکر، میاں بشیر احمد، جسٹس محمّد شریف، اے کے بروہی، پروفیسر حمید احمد خان، مولوی تمیز الدّین خاں، محمّد شریف خان، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، چوہدری محمّد علی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، سیّد محمّد امین الحسینی، ڈاکٹر محمود حسین، صالح اوزجان، چوہدری محمّد افضل چیمہ، غلام محی الدّین قصوری، ڈاکٹر غلام یٰسین خان نیازی، حکیم محمّد سعید دہلوی، مولوی فرید احمد، اے آر کارنیلیئس، حسن الامین، اے ٹی ایم مصطفیٰ، مولانا احتشام الحق تھانوی اور جسٹس محبوب مرشد کے انٹرویوز شامل ہیں، جو 1961ء سے 1964ء کے درمیان لیے گئے۔ 

اِس ضمن میں علّامہ عبدالستار عاصم کا کہنا ہے کہ’’ یہ وہ شخصیات ہیں، جنہوں نے قوم اور انسانیت کی فکری، علمی، سیاسی اور سماجی رہنمائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے انٹرویوز ذوق و شوق سے پڑھے جاتے رہے اور آج بھی اُن میں بے حد کشش پائی جاتی ہے۔ اسلوب میں گفتگو کی دانش ہے، لطیف طنز و مزاح اور تاریخ کے نشیب و فراز بھی۔ یہ انٹرویوز سوال جواب کے حصار میں مقیّد رہنے کی بجائے جیتی جاگتی زندگی کے آزاد ماحول میں پروان چڑھے ہیں۔‘‘