انصار عباسی
اسلام آباد :…قومی اسمبلی کے اسپیکر نے ضابطے کی سنگین خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے مالی سال 2023-24سے متعلق 2024-25ء کی تمام آڈٹ رپورٹس آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو واپس بھیج دیں۔ پہلے ہی ان دستاویزات میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے ہوشربا اعداد و شمار کے حوالے سے تنازع پایا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ترجمان نے دی نیوز کو بتایا کہ رپورٹس دو وجوہات کی بنیاد پر واپس بھیجی گئیں۔ اول کہ یہ رپورٹس وزارتِ پارلیمانی امور کے ذریعے بھیجنے کے بجائے براہِ راست قومی اسمبلی سیکریٹریٹ بھیجی گئیں، اور دوم کہ انہیں پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل ہی عوام کیلئے جاری کر دیا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ یہ قومی اسمبلی کی توہین ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اے جی پی آفس اس کے باوجود دباؤ ڈال رہا تھا کہ رپورٹس ایوان میں پیش کی جائیں۔ ادھر حکومت کو شک ہے کہ اے جی پی آفس میں سے کوئی جان بوجھ کر یہ متنازع رپورٹس لیک کر رہا ہے تاکہ حکومت کو ہزیمت کا شکار کیا جا سکے۔ ان رپورٹس میں مالی سال 2023-24 کے دوران 3؍ لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا ذکر ہے، جو وفاقی بجٹ (14.5؍ ٹریلین روپے) سے 27؍ گنا زیادہ اور پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی (110؍ ٹریلین روپے) سے تین گنا زائد ہے۔ سابق آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے دی نیوز سے بات چیف میں ان اعدادوشمار کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے فوری نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی رقم کی دوبارہ جانچ ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے دور میں آڈٹ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے قبل کبھی عوام کیلئے جاری نہیں کی گئیں۔ اے جی پی آفس نے رابطہ کرنے پر موقف اختیار کیا کہ ادارے نے مقررہ طریقہ کار پر عمل کیا۔ ترجمان کے مطابق وزارت پارلیمانی امور کو خط بھیجا گیا اور قومی اسمبلی و سینیٹ سیکریٹریٹس کو بھی مطلوبہ کاپیاں بھجوائی گئیں، جو وہاں وصول بھی ہوئیں۔ جہاں تک بے ضابطگیوں کے غیر معمولی اعدادوشمار کو ایگزیکٹو سمری میں شامل کرنے کا تعلق ہے، ترجمان نے واضح کیا کہ گزشتہ سال بھی ایک جامع رپورٹ تیار کی گئی تھی، لیکن اس مرتبہ مختلف کیٹیگریز کے ساتھ اعداد و شمار شامل کیے گئے تاکہ تلاش اور حوالہ دینے میں آسانی ہو۔ تاہم، ترجمان نے اس اہم سوال کا براہِ راست جواب نہیں دیا کہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے قبل اے جی پی کی ویب سائٹ پر کیوں شائع کی گئی۔ یہی بات اس تنازع کی اصل وجہ بن گئی ہے۔