آئرش خاتون نے سوئٹزرلینڈ میں خودکشی پوڈ میں بیٹھ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔
خاتون نے اپنی موت کیلئے کمپنی کو 20 ہزار ڈالر سے زائد (تقریباً 58 لاکھ پاکستانی روپے) کی ادائیگی کی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق آئرلینڈ کی ایک 58 سالہ خاتون مورین سلا نے اپنی فیملی کو بتایا کہ وہ چھٹیاں منانے جا رہی ہے، لیکن دراصل وہ سوئٹزرلینڈ گئیں جہاں اس نے خودکشی میں مدد کیلئے بنائی گئی خصوصی پوڈ (Assisted Suicide) کے ذریعے زندگی ختم کر لی۔
خاتون نے اپنے گھر والوں کو بتایا تھا کہ وہ سیر کیلئے یورپی ملک لتھوانیا جارہی ہے، مگر اس کے دو قریبی دوستوں کو اس کی خودکشی کرنے کا منصوبہ معلوم تھا، جنہوں نے خاتون کی بیٹی کو بتایا کہ اس کی والدہ سوئٹزرلینڈ میں خودکشی کے لیے گئی ہیں۔
اگلے ہی دن خاتون کی بیٹی کو واٹس ایپ پر ایک پیغام ملا کہ اس کی والدہ انتقال کر گئی ہیں، جن کی لاش 6 سے 8 ہفتوں میں بھیجی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق مورین نے خودکشی میں مدد فراہم کرنے والی کمپنی کو خاموشی سے درخواست جمع کروائی تھی۔
واضح رہے کہ سارکو نامی پوڈ خودکشی کے خواہشمند افراد کو طبی نگرانی کے بغیر اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازت دینے کےلیے ڈیزائن کیا گیا تھا، یہ ایک تھری ڈی پرنٹڈ کیپسول ہے جس کی تصویر 2019 میں پہلی بار متعارف کروائی گئی تھی جس کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق خودکشی کے خواہشمند افراد اس کیپسول کے اندر جانے کے بعد بٹن پریس کرتے ہیں، جس سے چیمبر میں آکسیجن کی سطح میں تیزی سے کمی اور نائٹروجن کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوجاتا ہے، جس سے تقریباً 10 منٹ کے اندر انسان کی بے ہوشی کے بعد موت واقع ہو جاتی ہے۔
خیال رہے کہ سوئٹزرلینڈ 1940 کی دہائی سے معاون خودکشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے، بشرطیکہ کسی ایسے شخص کی مدد حاصل کی گئی ہو جسے خودکشی کرنے والے کی موت سے براہِ راست فائدہ نہ ہورہا ہو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ موت کے خواہش مند افراد کے لیے بہترین سیاحتی مقام بن گیا ہے۔