کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ حکومت نے مالی سال 2024-25 میں 160 ارب روپے انفراسٹرکچر سیس کی مد میں وصول کیے، لیکن یہ رقم کراچی پر نہیں لگائی گئی ،پورٹ سٹی کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی وجہ سے کاروباری برادری اضافی چارجز کی ادائیگی پر مجبور ہے ،جس سے پیداورای لاگت بڑھ جاتی ہے ،ایف پی سی سی آئی برسر اقتدار گروپ بزنس مین پینل کے سیکریٹری جنرل اور سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی خرم اعجاز نے کہا ہے کہ اگر سندھ حکومت انفراسٹرکچر سیس کے اربوں روپے کراچی کے انفرا اسٹرکچر پر لگا دے تو شہر کے تمام مسائل حل ہو جائیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ سٹی ہے اورملک میں معاشی حب کے نام سے جاناجاتا ہے۔ہماری 90 فیصد درآمدات اور برآمدات کراچی سے ہی ہو تی ہے لیکن افسوس کے اس شہر کا انفرا سٹرکچر ایک دن کی بارش میں ہی بیٹھ گیا۔ پورٹ کے راستے، سڑکیں اور نکاسی آب کا نظام انتہائی خستہ حال ہونے سے بارش کی وجہ سے ہزاروں گاڑیاں گھنٹوں پھنس گئیں، ٹریفک جام نے پورے لاجسٹک چین کو مفلوج کردیا اوردرآمدکنندگان و برآمدکنندگان اور ٹرانسپورٹرز کو بھاری مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔خرم اعجاز نے کہا کہ سندھ حکومت نے مالی سال 2024-25 میں 160 ارب روپے انفراسٹرکچر سیس کی مد میں وصول کیے۔5 سال میں یہ رقم 800 ارب روپے بن جاتی ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کا انفراسٹرکچر بارش کے ایک دن بھی نہیں سنبھال سکا۔انہوں نے کہا کہ یہ سیس سندھ حکومت کی کسی اضافی کاوش کے بغیر کسٹمز کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ذریعے وصول کر تی ہے۔ملک کی تمام امپورٹ اور ایکسپورٹ پر 1.85 فیصد کی شرح سے یہ ٹیکس عائد ہے جو کہ کسٹمز جی ڈی کی فائلنگ کے وقت جمع کرنا لازم ہے،کسٹمز ڈیوٹی کے ساتھ ہی یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو جاتی ہو جاتی یہ رقم چاہے عام دن ہو یا چھٹی کا دن ہر روز سندھ حکومت کو خودبخود حاصل ہو جاتی ہے،اس پر سندھ حکومت کے وسائل بھی خرچ نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ 160 ارب روپے کی اس وصولی کا مطلب ہے کہ ماہانہ اوسط تقریباً 13.33 ارب روپے روزانہ اوسط (365دن کے حساب سے) تقریباً 43 کروڑ 80لاکھ روپے روزانہ اوسط (کام کے دنوں کے حساب سے) تقریباً 53کروڑ 30 لاکھ روپے یعنی سندھ حکومت کو روزانہ تقریباً آدھا ارب روپے کی خطیر آمدنی ملتی ہ، بغیر کسی محنت یا اضافی کوشش کے لیکن اس کے باوجود کراچی کا انفراسٹرکچر ایک دن کی بارش بھی برداشت نہیں کر پاتا۔حالیہ بارش نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ بندرگاہ کے راستے، سڑکیں اور نکاسی آب کا نظام انتہائی خستہ حال ہیں۔ خرم اعجاز نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ انفراسٹرکچر سیس کی مجموعی آمدنی میں سے ایک معقول اور مقررہ حصہ کراچی بندرگاہ اور اس کے اردگرد کے علاقوں کی بہتری پر لازمی خرچ کیا جائے۔باقی رقم صوبے کے دیگر منصوبوں پر استعمال کی جا سکتی ہے لیکن شرط یہ ہو کہ یہ صرف انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ پر خرچ ہو۔ہر سال ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جائے جس میں یہ واضح ہو کہ کتنی وصولی ہوئی اور کن منصوبوں پر کتنی رقم خرچ کی گئی۔تاجر برادری حکومت سے کوئی رعایت یا استثنیٰ نہیں مانگ رہی۔