کراچی (اسٹاف رپورٹر)سٹی کورٹ میں کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام سیمینار کا انعقاد ہوا، عدلیہ کی آزادی، آئینی حکومت اور انصاف تک رسائی کے موضوع پر گفتگو کی گئی،سیمینار میں جسٹس سپریم کورٹ اطہر من اللہ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے،مہمانوں میں سابق صدر سپریم کورٹ بار منیر اے ملک شریک تھے، جسٹس اطہر من اللہ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہآئین کی بنیاد یہ ہے کہ حق حکمرانی عوام کا ہے، مجھے جب دعوت دی تو میں انکار نہیں کرسکا،ایک وجہ یہ ہے کہ کراچی بار ملک کی سب سے بڑی بار یہ اُسکا اعزاز ہے،کراچی بار کے عہدیداران نوجوانوں پر مشتمل ہیں ،ہمارا 77 سال کا نظام اس طرح ہوگیا ہے کہ لوگ اُن پانچ ججز کا نام لیتے ہوئے کتراتے ہیں،اگر ان ججز کو رول ماڈل بنالیا جاتا تو آمریت نہیں ہوتی،اُن ہیروز میں جسٹس ویلانی،جسٹس کونسٹائن و دیگر شامل ہیں،اس بار کا پورے ملک پر خاص طور پر عدلیہ پر بڑا احسان ہے،77 سال میں عدلیہ کی جو تاریخ ہے وہ میرے لیے قابلِ فخر نہیں ہے،وکلاء کی تحریک میں 90 وکلاء نے اپنی قربانیاں دیں ،اس بار نے دلیری سے آمریت کا مقابلہ کیا،وہ نوجوان ججز کو نہیں جانتے تھے، وہ اصولوں کے لیے کھڑے تھے،وہ صرف ججز کی بحالی نہیں آئین کی بالادستی ،آئینی حکومت چاہتے تھے،جن نوے لوگوں نے قربانیاں دیں انکو ہم دھوکہ نہیں دے سکتے،ہماری نسلیں اپنا وقت گزار چکی ہیں،ہم نے اپنے ہاتھوں سے کیا، کسی کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے،بحثیت جج میں نے جو حلف اٹھایا ہے تو پھر کسی وعدے کی ضرورت نہیں،وہ حلف یہ کے بغیر کسی خوف کے قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں،سب سے بڑھ کر یہ کہ آئین کا دفاع کرنا ہے،ملک میں آج اگر آئینی حکومت نہیں ہے اور میں بطور جج کچھ نہیں کر رہا تو میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہوں،جس معاشرے میں سچائی ختم ہوجائے وہ تباہ ہوجاتے ہیں، پاکستان کے دو حصوں کے لیے ایک آئین بن رہا تھا،اُسکے لیے ایک اسمبلی منتخب ہوئی تھی،وہ کسی دھاندلی کے ذریعے نہیں بنی تھی،جب انہوں نے آئین بنالیا اور پیش کرنے کا وقت آیا تو عسکری اور سول نے اسمبلی تحلیل کرلی،وہیں سے پاکستان ٹوٹنے کی بنیاد رکھی گئی ،جسٹس منیر کی کتاب پڑھنی چاہئے،یہ بار آمریت کے خلاف فاطمہ جناح کے ساتھ بھی کھڑی تھی،بحثیت جج مجھے ایک چیز قطعا سمجھ نہیں آتی،جنرل ضیاء الحق وردی میں بیٹھ کر ایک ادارے کو انٹرویو دے رہا ہے،سوال ہوا کہ ذوالفقار بھٹو کا کیس چل رہا ہے ججز پر بڑا پریشر ہوگا،ضیاء الحق نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے،انھی ججز نے بعد میں تسلیم کیا کہ پریشر کی وجہ سے سولی پر لٹکایا،اس میں بھی تین جج مخالف تھے،اُن میں سے دو یہاں سے تعلق رکھتے تھے، جسٹس حلیم اور جسٹس تراب پٹیل،اصل حکمران عوام ہے،ایک شرط یہ ہے کہ کوئی ادارہ پولیٹیکل انجینئرنگ نہیں کرے،جو عوامی نمائندے ہونگے وہ صاف شفاف طریقے سے منتخب ہوکر آئیں گے،لیکن ایسا آج تک صرف ہمارا خواب ہی ہے،جہاں بھی آمریت ہوتی ہے، اس میں بھی الیکشن ہوتے ہیں،صدر کراچی بار ایسوسی ایشن عامر نواز وڑائچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ ایسے وقت میں آئے جب عدلیہ کے زیادہ لوگ کسی ادارے یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہوچکے ہیں، آپ نے ہمیشہ آئین کی بالادستی کی بات کی ہے، چھبیسویں آئینی ترمیم آنے پر اس وقت کے چیف جسٹس نے جو کردار ادا کیا وہ ڈھکا چھپا نہیں ، عزت اس کو ملتی ہے جو اصولوں پر کاربند رہتا ہے، جب انہیں سینئر جج ہٹانے کی سازش ہوئی تو وکلاء نے ساتھ دیا، ہم کہتے تھے جب یہ چیف جسٹس بنیں گے وہ ہماری آخری اُمید ہونگے، لیکِن انہوں نے ہماری پیٹھ میں چُھرا گھونپ دیا، سندھ میں آئینی بینچ بنانے کے بعد نویں نمبر والے کو جسٹس بنادیا،جنرل سیکرٹری کراچی بار ایسوسی ایشن رحمٰن کورائی نے کہا کہ جب ہم نے مئی کے مہینے میں اسلام آباد میں احتجاج کیا تو ہمیں سپریم کورٹ جانے سے روک دیا گیا ۔