مون سون کی بارشوں اور بھارت کی طرف سے دریائوں میں چھوڑے جانیوالے اضافی پانی کی وجہ سے ابتک پاکستان میں 59 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں 31 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ اور 22 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں سیلاب کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے ورلڈ فوڈ پروگرام کی سیٹلائٹ کی مدد سے بنائی گئی رپورٹ کے مطابق تادمِ تحریر سیالکوٹ، نارووال، گجرات اور راجن پور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں پر 28 لاکھ سے زیادہ آبادی زیر آب ہے اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح منڈی بہاوالدین، حافظ آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد، چنیوٹ،جھنگ، قصور ،بہاولنگر اور میانوالی میں بھی دریا کی قریبی آبادیوں میں کسانوں کو فصلوں کے زیر آب آنے اور مویشیوں کے پانی میں بہہ جانے کی وجہ سے کافی زیادہ نقصان ہوا ہے۔ علاوہ ازیں خیبرپختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک، سندھ میں کشمور اور گھوٹکی بھی متاثرہ اضلاع میں شامل ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ چند ماہ قبل پانی کی شدید قلت کے باعث جہاں ایک طرف تربیلا اور منگلا ڈیم ڈیڈ لیول کے قریب پہنچ چکے تھے اور سندھ میں نئی نہریں نکالنے کے مجوزہ منصوبے پر احتجاج ہو رہا تھا۔ وہیں اب ہمارے دریائوں میں اتنا پانی ایک ساتھ موجود ہے کہ اس کو سنبھالنے کیلئے ڈیم یا آبی ذخیرے دستیاب نہیں ۔ علاوہ ازیں پنجاب میں تباہی پھیلانے والے سیلابی ریلے عنقریب سندھ میں داخل ہونیوالے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس سیلاب نے جہاں ایک طرف ہماری واٹر مینجمنٹ پر سوالات اٹھائے ہیں وہیں ارلی وارننگ سسٹم اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاریوں کے حوالے سے صوبوں کی استعداد و صلاحیت بھی زیر بحث ہے۔ خیبر پختونخوا کے علاقے دیر میں سیلاب کے باعث کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹنے اور سینکڑوں شہریوں کی اموات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ان علاقوں میں بہتر ارلی وراننگ سسٹم موجود ہوتا تو شاید ہم اس سانحے سے بچ سکتے تھے۔پنجاب میں امدادی کارروائیوں کے حوالے سے صورتحال اس لحاظ سے بہتر رہی کہ پاک فوج، پی ڈی ایم اے اور ریسکیو 1122 نے مل کر صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن کیا اور لاکھوں لوگوں کو سیلابی ریلوں کی آمد سے قبل محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ علاوہ ازیں جدید ٹیکنالوجی کے حامل ڈرونز پر نصب نائٹ ویژن اور تھرمل امیجنگ کیمروں کی مدد سے ان علاقوں سے بھی شہریوں کو ریسکیو کیا گیا جو انسانی آنکھ سے اوجھل تھے یا وہاں تک امدادی ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں تھی۔ تاہم پنجاب میں بالخصوص لاہور میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بڑی تعداد ان آبادیوں کی ہے جو غیر قانونی طور پر دریا کے علاقے میں آباد کی گئی تھیں۔ اس لئے مستقبل کی منصوبہ بندی میں یہ بات مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دریا کے علاقے میں تجاوزات یا غیر قانونی آبادیوں کے قیام کو سختی سے روکا جائے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2022 میں بھی مون سون کی غیر معمولی اور طویل بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی وجہ سے چاروں صوبوں میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق اس سیلاب سے 110 اضلاع میں گیارہ سو سے زائد افراد کی اموات ہوئیں جبکہ ساڑھے تین کروڑ سے زائد لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئیں۔ علاوہ ازیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ساڑھے نو لاکھ گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے جبکہ آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی مارے گئے تھے۔ اس سیلاب کے باعث صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا جہاں 16 اضلاع کی 50 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب کے باعث بے گھر یا متاثر ہوئی ۔ صوبہ بلوچستان کے 34 اضلاع کے چار لاکھ سے زائد افراد متاثرین میں شامل تھے جبکہ صوبہ پنجاب کے آٹھ اضلاع میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد بارشوں اور سیلاب کے باعث بے گھر ہوئے تھے۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے 33اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً 50 ہزار سے زائد تھی۔یہ اس تباہی کی ایک جھلک ہے جو قدرت ہمیں دو سال قبل دکھا چکی ہے اور اس سال پھر ملک کا بڑا حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2010ء کے شدید سیلاب کے فوری بعد پاکستان کو موسم کی سائنسی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی پیشگوئیوں میں بتا دیا گیا تھا کہ آنے والے چند سالوں میں پاکستان کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن سیلابی صورتحال کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں اس سے نمٹنے کیلئے کوئی خاطر خواہ تیاری نہیں کی گئی۔ اب بھی وقت ہے کہ قومی سلامتی کو درپیش خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئےسیاسی جماعتیںپانی کی بہتر مینجمنٹ کیلئے طویل المدت پالیسی تشکیل دیں۔ علاوہ ازیں ترجیحی بنیادوں پر نئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود آبی گزرگاہوں اور آبی ذخائر کی صفائی بھی ضروری ہے۔