(گزشتہ سے پیوستہ)
مجھے اس وقت گھوڑے پر بہت غصہ آیا کہ کمبخت تم گھوڑے ہو کوئی گدھے نہیں ہو لیکن اس غصے کے اظہار کے لیے بھی ہارن بجانا ضروری تھا چنانچہ میں صرف جی مسوس کر رہ گیا اب وہ مقام آ پہنچا تھا جس کا شمار’’مقامات آہ وفغاں‘‘میں ہوتا ہے یعنی ریڑھے پر لدے ہوئے سریوں اور گاڑی میں کم و بیش اتنا فاصلہ رہ گیا تھا جتنا جاں اور دشمن جاں میں ہوتا ہے۔ ایک دفعہ پشاور کی طرف جاتے ہوئے حسن ابدال کے قریب بھی میں اس جان لیوا تجربے سے گزرا تھا چنانچہ انجام کا سوچتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں فوراً کار سے نکل کر باہر آ گیا تا کہ کار کے ساتھ میں بھی کسی سریے میں پرویا نہ جاؤں تاہم خدا کا شکر ہے کہ اس عرصے میں ٹریفک رواں ہو گیا جس کے نتیجے میں کوچوان نے بس باگوں کو جھٹکا دیا منہ سے’’ کھی کھی‘‘کی آواز نکالی اور یوں میں اس موذی سواری کی زد میں آنے سے بچ گیا !اسٹیشن پہنچنے پر میں نے دوست کا سامان گاڑی کے کیریر پر رکھا اور کہا ’’ اس ٹرین کو بھی آج ہی وقت پر پہنچنا تھا۔‘‘دوست نے کہا’’ اس کی کسر تم نے پوری کر دی دس منٹ سے باہر کھڑا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ کیا بات ہوگئی تھی ؟ ‘‘میں نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا ” ابھی پتہ چل جائے گا!‘‘ جی ٹی ایس کے اڈے کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک بس میرے آگے لگ گئی ۔ دوست نے کہا ’’کیا اس کے پیچھے پیچھے رینگ رہے ہو اسے پاس کیوں نہیں کرتے ؟ ‘‘میں نے کہا’’ اس کے پیچھے لکھا ہوا ہے ہارن دے کر پاس کریں ! ‘‘دوست نے کہا ” ہارن کیوں نہیں دیتے؟“ میں نے کہا ” ابھی پتہ چل جائے گا ‘‘ریڈیو اسٹیشن والی سڑک پر ٹریفک کم تھا مگر میرے لیے بہت زیادہ تھا۔ دوست نے کہا ” تیز کیوں نہیں چلتے اس طرح تو ہم منزل تک بہت دیر سے پہنچیں گے‘‘۔ میں نے کہا’’ اگر تیز چلے تو یہ امکان بھی موجود ہے کہ ہم منزل تک کبھی پہنچ ہی نہ سکیں ! ‘‘دوست نے پوچھا ’’وہ کیوں؟“ میں نے کہا ” ابھی پتہ چل جائے گا!‘‘ گھر میں کھانے پر میرا اور میرے دوست کا انتظار ہورہا تھا چنانچہ میں نے علامہ اقبال ٹاؤن تک پہنچنے کیلئے نہر والی سڑک کا انتخاب کیا کہ وہ پر سکون اور رواں سڑک ہے چنانچہ اس کیلئے ریڈیو اسٹیشن سے بائیں جانب ٹرن لے کر میں ڈیوس روڈ پر آیا لیکن سرخ پھولوں والے چنار کے دو رویہ درختوں میں سے گزرتے ہوئے سامنے سے ایک کار جھومتی جھامتی آتی دکھائی دی۔ میں نے غیر ارادی طور پر ہارن اور بریکوں پر پاؤں رکھ دیا بریکیں تو کام آ گئیں مگر ہارن نے اس موقع پر بھی خاموشی اختیار کیے رکھی وہ تو خدا کا شکر ہے کہ سامنے سے آنے والی کار کے ڈرائیور کو عین موقع پر اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، مگر یہ احساس قدرے لیٹ تھا، جس کا خمیازہ ہم دونوں کو بہر حال بھگتنا پڑا۔دوست نے ایک ہاتھ سے اپنا گھٹنا سہلاتے اور دوسرے ہاتھ سے اپنی گردن سیدھی کرتے ہوئے خشمگیں نظروں سے میری طرف دیکھا میں نے ہنستے ہوئے پوچھا ” کیا بات ہے؟“ اس دفعہ میری بجائے اس نے کہا ’’ابھی پتہ چل جائے گا !‘‘،’’کیا پتہ چل جائے گا ؟“ میں نے پوچھا۔’’یہی کہ ہمارے لیے بغیر ہارن کے گاڑی چلانا بہت خطرناک ہے۔“،’’یہ تم نے کون سی نئی بات کی ہے۔’’میں نے کب کہا ہے کہ یہ نئی بات ہے‘‘دوست نے کہا ’’میں تو بہت پرانی بات کر رہا ہوں میں تو جو کچھ کہ رہا ہوں پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے کہ ہارن کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہمارے ہاں ابھی تک کتنے سیاسی فوجی مذہبی اور معاشرتی المیے رونما ہو چکے ہیں!’’کیا مطلب؟ ‘‘میں نے پوچھا۔ دوست کو تازہ تازہ چوٹ لگی تھی اور یوں اسے ہارن کے ڈانڈے دور دور تک ملانے کا حق تھا۔دوست نے ایک دفعہ پھر اپنی گردن سہلاتے ہوئے کہا’’ مطلب یہ کہ خطرے سے آگاہ ہونے اور خطرے سے آگاہ کرنے کے وقت سے پہلے ہارن بجانا بہت ضروری ہے تاکہ طرفین متوقع غلطی سے واقف ہو جائیں اور اس کے نتیجے میں ہولناک انجام سے بچ جائیں، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام فوجی نظام معاشی نظام اور معاشرتی نظام ہارن سے بے نیاز چل رہا ہے۔ ہارن کی آواز کسی کو اچھی نہیں لگتی چنانچہ اگر کوئی ہارن بجائے تو ارباب اقتدار ناراض ہو جاتے ہیں سیاست دانوں کو ان کی کسی غلطی پر ٹوکنے کیلئے ہارن بجا ئیں تو وہ آگے سے دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ اور اپنا رستہ بدلنے کی بجائے پرانے رستوں پر چلتے رہتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کے کان خطرے کے ہارن نہیں سن رہے حالانکہ اس پر توجہ نہ دینے کی صورت میں ان مذہبی رہنماؤں سمیت سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ معاشی بزر جمہروں نے معاشی نظام میں وہ ہارن ہی فٹ نہیں ہونے دیا، جو بدترین معاشی ناہمواری کے نتیجے میں جنم لینے والے ہولناک تصادم سے بچا سکے۔ معاشرتی سیاست دانوں نے کانوں پر مفلر لپٹے ہوئے ہیں اور ہارن کی تار بھی ڈس کنکٹ کی ہوئی ہے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں ہم جن المیوں سے گزر چکے ہیں وہ ہمیں کافی بڑے المیے لگتے ہیں۔ لیکن یقین کرو یہ نظام اگر زیادہ دیر بغیر ہارن کے چلتے رہے تو ان کی تباہ کاریاں ایسی ہیں کہ جن کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ لوگوں کی زندگیوں اور ان کے عقیدوں سے کھیلنا بہت بڑا جرم ہے، ایک نسل تو ہمارے اس جرم کا عذاب بھگت چکی ہے کم از کم آئندہ نسلوں کو اس عذاب سے بچالو!‘‘میں نے کار ایک الیکٹریشن کی دکان پر روکی اور کہا۔ اس کا ہارن خراب ہے ٹھیک کردو اور اس کے بعد میں کچھ اس طرح مطمئن ہوگیا جیسے میں نے اپنی کار کا ہارن نہیں موجودہ نظام کا ہارن ٹھیک کروانے کی ہدایت کردی ہے۔