کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان “کےمیزبان شہزاد اقبال سے بات چیت کرتے ہوئے برطانوی ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کیلئے پاکستان تیار ہورہاہے لیکن ابھی بھی اسے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔سابق سفارت کار سردارمسعود خان نے کہا کہ پاکستانی قیادت نے سفارتی چابک دستی اور حکمت عملی کے ذریعے خارجہ پالیسی کو کامیابی کی جانب گامزن کیا ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر ،جین میریٹ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئےمزید کہا کہ سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلی پیدا نہیں کی۔پاکستان کاکاربن اخراج کاموسمیاتی تبدیلی میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو پاکستان نے پیدا نہیں کیا لیکن متاثر ہورہا ہے۔پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کے سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے لئے پاکستان تیار ہورہاہے لیکن ابھی بھی اس کو مزید تیار ہونے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ اب سے لے کر2030 ء تک پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے نقصان سے نمٹنے کے لئے تقریباً348 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔کسی بھی ملک کے لئے یہ ایک بہت بڑی رقم ہے اور یہاں پر نجی شعبے کو آگے آکر بہت کچھ کرنا ہوگا۔حالیہ سیلاب سے جہاں تک تباہ کاریوں کی بات ہے تو میری دلی ہمدردی ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جو اس سے متاثر ہوئے۔لاکھوں لوگ متاثر ہوچکے ہیں، یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ہمارے تین طویل المدتی پروگرامز ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف قوت بڑھانے کے لئے ہیں۔لیکن اس موجودہ ہنگامی صورتحال میں ہم نے ریسکیو کے لئے تقریباً500 ملین روپے کی امداد دی ہے۔یہ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت کو مدد کے طو ر پر دی گئی ہے تاکہ دوبارہ تعمیر میں مدد ملے اورتعمیرات کو زیادہ مضبوط اور پائیدار طریقے سے بنایا جاسکے۔زیادہ تر رقم استعمال ہورہی ہے لیکن کچھ پروگرامز سات سے آٹھ سالوں پر محیط ہیں ہم پاکستان کے ساتھ ایک طویل المدتی شراکت کے طور پر کام کررہے ہیں۔بڑی رقم جیسے 108 ملین پاؤنڈزوہ پرائیویٹ فنانسنگ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منصوبہ ہے وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔اس لئے تھوڑی رقم جاری ہوئی ہے لیکن سب کچھ منصوبے کے مطابق ہے۔تمام ممالک کو ذمہ داری لینا چاہئے اس وقت پانچ بڑے کاربن اخراج کرنے والے ممالک ہیں خاص طو رپر چین ہے۔برطانیہ کا اخراج ایک فیصد سے بھی کام ہے۔ہم حالیہ وقتوں میں کاربن کے اخراج میں حصہ دار نہیں ہیں۔ حالانکہ تاریخی طور پر ہمارا کردار ضرور رہا ہے۔لیکن چین ، امریکا، برازیل ، انڈونیشیاجیسے ممالک کو اپنی معیشتوں کو بدلنا ہوگا۔میرے خیال میں چین نے قابل تشکیل توانائی کی طرف کافی پیش رفت کی ہے لیکن اب بھی وہ سب سے بڑے کاربن اخراج کرنے والوں میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے مقامی سطح پر بھی رقم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ایسا نہیں ہے کہ باہر سے سفید گھوڑے پر سوار کوئی ہیرو آئے گابہت سارا پیسہ دے کر ملک کو بچالے گازیادہ تر کام مقامی سطح سے ہی شروع کرنا ہوگا اور نجی شعبے کے ذریعے آگے بڑھنا ہوگا۔2022 ء میں سیلاب سے 30 ہزار سے زائد اسکولز متاثر ہوئے اورساڑھے 30 لاکھ بچے اسکول واپس نہ جاسکے۔حالیہ سیلاب میں بھی 500 سے زائد اسکولز متاثر ہوئے ہیں۔یہ سلسلہ چلتا رہے گا سیلاب آتے رہیں گے۔خواندگی پر خرچ ہونے والے ہر ڈالرکے بدلے میں جی ڈی پی میں20 ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے ۔خواندگی ہی جو ترقی اور خوشحالی لاتی ہے اور پاکستان اس کا حقدار ہے۔ پاکستان میں نجی اسکولوں کا نظام بہت اچھا اور موثر ہے لیکن وہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے نظام میں لوگ بڑی محنت کررہے ہیں لیکن یہ ایک بہت مشکل کام ہے ۔ پاکستان میں تقریباً4 لاکھ مدارس بھی ہیں جہاں ایک الگ طرز کی تعلیم دی جاتی ہے۔دو سے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ ایک طرف یہ مسئلہ ہے کہ بچوں کو تعلیم کیسے دی جائے اور دوسری طرف یہ بھی اہم ہے کہ تعلیم کا معیارکیسا ہو۔اگر پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی شامل کرلیں تو پاکستان ہر سال اپنی آبادی میں تقریباً نیوزی لینڈ کے برابر اضافہ کررہا ہے۔یہ پالیسی بنانے والوں کے لئے واقعی بڑا چیلنج ہے۔تعلیم پر پیسہ موثر طریقے سے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس ذہانت ہے اچھی نیت ہے اور یہاں بہت محنتی لوگ موجو دہیں۔ہم بنیادی طور پر دو پروگرامز چلا رہے ہیں جن میں دیا اور گول شامل ہیں۔جو بھی ہم کرتے ہیں وہ حکومتی اداروں کے ذریعے کرتے ہیں۔تکنیکی تعلیم میں بھی مدد فراہم کررہے ہیں۔پی آئی اے کے لئے پروازیں جلد شروع ہوں گی پاکستان کو ایئر سیفٹی لسٹ سے نکال دیا گیا ہے تو اب پی آئی اے براہ راست برطانیہ کے لئے پرواز کرسکتی ہے۔ پی آئی اے اسلام آباد سے مانچسٹر کے لئے پرواز جلد شروع کرنے کا سوچ رہی ہے کچھ تکنیکی کاغذی کارروائیاں باقی ہیں۔پائلٹس کے لائسنس اور دیگر مسائل سب کچھ حل ہوچکا ہے ہم نے بہت تفصیل سے معائنہ کیا ہے، جیسا کہ یورپی یونین کے ساتھیوں نے بھی کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان نے اپنے معیار کو بہت بہتر بنایا ہے اور اب وہ بہترین ممالک کے برابر ہے۔ہم نے جولائی میں اپنے خدشات ہٹا دیئے تھے جیسے ہی کاغذی کارروائی مکمل ہوجائے گی طیارے پروازیں شروع کرسکتے ہیں۔مجھے اسلام آباد سے مانچسٹر کی فلائٹ پر سوار ہونے کا شدت سے انتظار ہے۔ سابق سفارت کار سردارمسعود خان نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کو سراہا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قیادت نے سفارتی چابک دستی اور حکمت عملی کے ذریعے خارجہ پالیسی کو کامیابی کی جانب گامزن کیا ہے، جس کا اثر عالمی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی اب ایک ہمہ جہت حکمت عملی بن چکی ہے، جو نہ صرف چین اور امریکہ جیسے عالمی طاقتوں بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی مستحکم تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ پالیسی ایک کے بعد ایک کامیاب قدم ثابت ہو رہی ہے، جس سے پاکستان کی اہمیت عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے۔ واشنگٹن میں بھی یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ پاکستان جنوبی اور مغربی ایشیا میں ایک اہم ملک ہے اور اس کی اسٹریٹجک، معاشی اور اقتصادی حیثیت میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کے لیے نئی اقتصادی راہیں کھلی ہیں، جن میں کرپٹو کرنسی، معدنیات اور توانائی کے نئے ذرائع شامل ہیں۔ سردار مسعود خان نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کو بھی ایک سنگ میل قرار دیا، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں گہرائی آئی۔ انہوں نے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان حالیہ تعلقات کو ایک ”صدی میں ایک مرتبہ“ہونے والی تبدیلی قرار دیا گیا