• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صبح میں اُٹھنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ ہم میں سے اکثر لوگ شاید یہ سوچتے ہی نہیں اور اگر کہا جائے کہ کل صبح آنکھ کھولتے ہی آپ کو اس ’بڑے‘ سوال کا جواب تلاش کرنا ہے اور اس کے بعد بستر سے نکلنا ہے تو شاید ہم میں سے کئی لوگ، کوئی معقول جواب نہ پاکر، واپس سوجانے میں ہی عافیت محسوس کریں گے۔ اگر ایسا ہے تو جاپان کے لوگوں کا Ikigai کا تصور آپ کی مدد کرسکتا ہے۔

اس تصور نے ایک ایسے ملک میں جنم لیا ہے، جس کا شمار دنیا کی طویل ترین عمریں پانے والی اقوام میں ہوتا ہے، اور اب لمبی عمریں پانے کا یہ تصور جاپان سے باہر بھی مقبول ہورہا ہے۔

ہرچند کہ لفظ Ikigaiکا براہِ راست انگریزی یا اردو میں کوئی لفظی معنی نہیں ہے، Ikigaiجاپانی زبان کے دو الفاظ Ikiruمطلب ’جینا‘ اور Kaiمطلب ’اسے حاصل کرنا جس کی آپ اُمید لگائے بیٹھے ہیں‘۔ یہ دونوں الفاظ مل کر ’جینے کی ایک وجہ‘ یا ’بامقصد زندگی‘ کا ایک تصور تخلیق کرتے ہیں۔ یہاں Gai کا لفظ Kai سے نکلا ہے، جس کا انگریزی زبان میں مطلب Shellیا پھر ’خول‘لیا جاسکتا ہے۔

اس تصور کا تعلق، جاپان کی کلاسیکی تاریخ سے جا ملتا ہے، جسے Heian Periodکہا جاتا ہے(یہ دور 794ء سے 1185ء تک جاری رہا)۔ جاپان کی ’ٹویو آئیوا یونیورسٹی‘ کے ماہرِ نفسیات اور ایسوسی ایٹ پروفیسراکیہیروہاسیگاوا کے مطابق، یہ تصور جاپانی افراد کی زندگیوں میں اقدار کی سوچ کو فروغ دیتا ہے۔

اکیہیرو کہتے ہیں کہ، زندگی کی وجہ یا مقصد تلاش کرنے کے لیے ، آپ ابتداء بنیادی طور پر چار سوالات سے شروع کرتے ہیں:

* آپ کس سے پیار کرتے ہیں؟

* آپ کس کام میں اچھے ہیں؟

* دُنیا آپ سے کیا چاہتی ہے؟

* آپ ایسا کیا کرسکتے ہیں، جس کے بدلے آپ کچھ کما سکتے ہیں؟

غیرجاپانیوں کے لیے، ان چار سوالات کے جواب تلاش کرنے اور ان میں توازن قائم کرنے میں ہی Ikigaiکا تصور پنہاں ہے اور یہی اس عظیم جاپانی فلاسفی کی توضیح ہے۔ غیرجاپانی افراد کے برعکس، جاپانی افراد کے لیے درحقیقت یہ ایک سست رو عمل ہے، اور اکثر جاپانی باشندے اس کا تعلق ’کام‘ یا ’آمدنی‘ سے نہیں جوڑتے۔ کام یا آمدنی، کچھ جاپانی افراد کے مجموعی Ikigai کا ایک حصہ ضرور ہوسکتا ہے۔

اس کا ایک ثبوت ایک ریسرچ کی صورت میں موجود ہے۔ 2010میں، جاپان میں 2,000مرد وں اور خواتین سے ایک سروے کیا گیا۔ ان میں سے صرف 31فی صد لوگوں نے ’کام‘ کو اپنا Ikigai قرار دیا۔

چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے پروفیسر برائے علم البشریات (Anthropology) گورڈن میتھیوز ، جو کتاب What Makes Life Worth Living?: How Japanese and Americans Make Sense of Their Worldsکے بھی مصنف ہیں، نے ایک غیرملکی اشاعتی ادارے کو انٹرویو میں بتایاکہ لوگ Ikigai کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے جاپانی افراد کے دیگر دو تصورات Ittaikan اور Jiko Jitsugenسے بھی مدد ملے سکتے ہیں۔ Ittaikan سے مراد ’ایک مقصد یا گروہ یا تفویض کردہ کردار کے ساتھ یکسوئی‘ ہے، جب کہ Jiko Jitsugen کا تعلق تکمیلِ ذات (Self-realization) کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔

گورڈن میتھیوز کہتے ہیں کہ Ikigai پر عمل کرکے آپ بہتر زندگی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں، کیوں کہ آپ کے پاس ’زندگی جینے کے لیے ایک مقصد‘ ہوتا ہے۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس جاپانی تصور کو زندگی گزارنے کے لیے واحد انتخاب کے طوپر نہیں دیکھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ’’Ikigaiکسی بہت بڑی یا غیرمعمولی سوچ کا نام نہیں ہے۔ ہمیں اس تصور کو بس ایک ’سچ بات ہے‘ کے طور پر لینا چاہیے‘‘۔

اوکیناوا، جاپان کے مغرب میں واقع ایک جزیرے کا نام ہے، جہاں غیرمعمولی طور پر سب سے زیادہ ’سو سال یا اس سے زائد‘ عمریں پانے والے افراد رہتے ہیں۔ ایسے خطوں کو ماہرین Blue Zoneکے طور پر بھی جانتے ہیں۔ ’بلیوزونز‘ کے ماہر ڈین بیوٹنر کہتے ہیں کہ، اوکیناوا جزیرے کے باشندوں کی زندگیوں میں Ikigai سرایت کرچکا ہے۔ 

ایک خاص قسم کی غذا اور دوستوں کے ’سپورٹ نیٹ ورک‘ کی بدولت یہاں کے لوگ طویل عرصہ زندہ رہتے ہیں، کیوں کہ اس تصور کے ذریعے وہ زندگی کا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈین بیوٹنر ایک کراٹے ماسٹر، ایک ماہی گیر اور ایک دادی ماں کی مثال دیتے ہیں، جنھوں نے تین مختلف طرز کی زندگی گزارنے کے باوجود سو سال سے زائد عمریں پائی ہیں۔

تاہم بیوٹنر کا بھی ماننا ہے کہ صرف Ikigaiپر یقین رکھنا کافی نہیں ہے۔ یہ سارے لوگ، اپنے مقصد کے حصول کے لیے عمل بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے Ikigaiبھی بدل جاتا ہے۔ آج جن افراد کا Ikigai زندگی گزارنے کے لیے کام ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کے بعد چوں کہ انھیں مزید کام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، اس لیے انھیں ایک نیا Ikigai تلاش کرنا ہوگا۔

محققین کا ماننا ہے کہ ’بلیو زونز‘ میں رہنے والے افراد ناصرف طویل عمریں پاتے ہیں، بلکہ وہ دیگر کے مقابلے میں بہتر زندگی بھی گزارتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی عمر کے80اور 90سال کی عشرے میں بھی سرگرم زندگی بسر کرتے ہیں اور دیگر افراد کے مقابلے میںان انحطاطی بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے، جو اکثر صنعتی ممالک کے باشندوں کو اس عمر میں پیش آتی ہیں۔

جاپان کے اوکیناوا جزیرے کے علاوہ، یونان کے جزیرے ’اِیکاریا‘، اٹلی کے ’بارباجیا ریجن‘، کیلی فورنیا کے چھوٹے سے شہر ’لوما لینڈا‘ اور کوسٹاریکا کے جزیرہ نما ’نیکویا‘ کو بھی ’بلیو زونز‘ میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں کے اکثر باشندے سو سال سے اوپر زندگی پاتے ہیں۔ ان تمام بلیو زونز میں رہنے والے افراد میں کئی خصوصیات مشترک ہیں، جن میں Ikigaiبھی شامل ہے۔ اوکیناوا کے لوگ اسے Ikegai جب کہ نیکویا کے باشندے اسے Plan De Vida کہتے ہیں۔ 

دونوں کا مقصد ایک ہی ہے: یہ لوگ، زیادہ صحت مند اور زیادہ خوش زندگی گزارنے کے لیے خود سے ہر صبح اُٹھنے کے مقصد کا سوال ضرور کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، جو لوگ ایک مقصد کے تحت زندگی گزارتے ہیں اور مقصد کے حصول کے لیے عملی جدوجہد کرتے ہیں، وہ ایک عام فرد کے مقابلے میں سات سال زائد زندگی پاتے ہیں۔

صحت سے مزید