کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی ریاست یوٹاہ کی ایک تقریب میں بدھ کو میک امریکا گریٹ اگین (MAGA) کے داعی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے شخص چارلی کرک کے قتل کے فوری بعد پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی طور پر جس شخص کو حراست میں لیا گیا وہ ایک بوُمر تھا، جسے بعد میں رہا کر دیا گیا۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی پروفائلنگ بالکل بھی حیران کن نہیں۔ غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والے تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ ’’بوُمر‘‘ (Boomer) دراصل ’’Baby Boomers‘‘ نسل کو کہا جاتا ہے، یعنی وہ افراد جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1946ء سے 1964ء کے درمیان پیدا ہوئے۔ مغرب میں یہ نسل معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں، آزادی کے نعروں اور انقلابی رویوں کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ماضی میں یہی بوُمر نسل جمہوریت اور آزادی کے نعرے لگاتی اور سسٹم کی سب سے بڑی نقاد سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج یہی سوچ رکھنے والے افراد نظام کے محافظ بن چکے ہیں۔ اگر نظام کو بچانے کیلئے کسی مخالف کو زخمی کرنا یا مارنا پڑے تو یہ لوگ گریز نہیں کرتے۔ چیک ریپبلک میں انتخابی مہم کے دوران سابق وزیراعظم آندرے بابش کو ایک بزرگ شہری نے سر پر چھڑی مار دی۔ ان پر حملہ ایسے وقت میں ہوا جب وہ یورپی یونین کی پالیسیوں، یوکرین کی حمایت، نیٹو کے فوجی اخراجات اور مہنگائی جیسے مسائل پر کھل کر تنقید کر رہے تھے۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ نفرت حکومتی جماعتوں کی طرف سے برسوں سے بوئی گئی ہے، جس کا نتیجہ تشدد کی شکل میں سامنے آیا۔ یہ پہلا موقع نہیں۔ اس سے قبل سلوواکیہ کے وزیراعظم رابرٹ فیکو پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، جس میں ایک 71؍ سالہ شاعر نے گولیاں چلائیں۔ وجہ وہی نکلی؛ یوکرین کے معاملے پر فیکو کا اختلافی موقف۔ فیکو نے بعد میں کہا کہ اصل مسئلہ سیاسی نفرت ہے جسے ناکام اپوزیشن نے پروان چڑھایا۔ اسی طرح یورپ کے کئی ملکوں میں پاپولسٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کو مسلسل بوُمر نسل کے افراد کے حملوں کا سامنا ہے۔ جرمنی میں صرف 6؍ ماہ میں دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے سیاستدانوں پر 48؍ حملے ریکارڈ ہوئے، جن میں ایک کونسلر کو چاقو مارا گیا۔