• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں کچھ عرصہ پہلے تک ڈھائی ہزار نیوز پیپر اسٹالز تھے، اب محض 60  رہ گئے ہیں
کراچی میں کچھ عرصہ پہلے تک ڈھائی ہزار نیوز پیپر اسٹالز تھے، اب محض 60 رہ گئے ہیں

گزشتہ چند برسوں سے اخباری صنعت بدترین بحران سے دوچار ہے۔ اِس بحران کے کیا اسباب ہیں؟ اِس ضمن میں طویل اور گرما گرم بحث ہوسکتی ہے، اِس کی وجوہ خواہ کاغذ، پرنٹنگ، دفاتر سمیت مختلف شعبوں کے ضمن میں ہونے والے اخراجات میں اضافہ ہو یا سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال، حقیقت یہ ہے کہ اِس بحران نے جہاں بڑے بڑے اداروں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے اور وہ مسلسل اپنی چادر سمیٹتے جا رہے ہیں، وہیں اخباری ملازمین بھی بے روزگاری اور کم تن خواہوں جیسے عفریت کی گرفت میں ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے لیے’’جاب مارکیٹ‘‘ کا شٹر تقریباً گر چُکا ہے۔ 

دوسری طرف، اخبارات کی تقسیم سے وابستہ افراد، خواہ وہ ڈسٹری بیوٹرز ہوں، اسٹالز والے یا بازاروں، گاڑیوں اور ٹریفک سگنلز وغیرہ پر آوازیں لگا کر اخبار بیچنے والے ہاکرز، سب کی حالت دگرگوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اخبارات کے اسٹالز ختم ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ گھوم پِھر کر اخبار بیچنے والے تو کبھی کبھار ہی نظر آتے ہیں۔ 

اِس کام سے وابستہ افراد، روزگار کے دیگر ذرائع تلاش کر رہے ہیں، حالاں کہ ایک زمانے میں یہ کام نسل در نسل منتقل ہو رہا تھا اور یہ خاندان اِس کام سے مطمئن بھی تھے اور اُنھیں اس پر فخر بھی تھا، مگر اب وہ بُجھے بُجھے سے ہیں کہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصّہ جس کام کی نذر کیا ہو اور وہ کام بھی ایسا، جو شوق سے بڑھ کر عشق بن چُکا ہو، اُس سے کنارہ کش ہونا، آسان نہیں ہوتا، لیکن حالات نے اُنھیں یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور کردیا ہے۔ ہم نے ایسے ہی کچھ افراد سے ملاقات کی، اُن کے ساتھ گفتگو کی طویل نشستیں کیں تاکہ اخبار فروشوں کے خیالات اور اُن کے حالات سے آگہی ہوسکے۔

محمّد انور
محمّد انور

محمّد انور کا شمار کراچی کے قدیم ترین اخبار فروشوں میں ہوتا ہے۔ کراچی کے مرکزی علاقے، صدر کی ریگل چوک پر 1959ء سے اُن کا اسٹال موجود ہے، جو صبح سے رات گیارہ بجے تک کُھلا رہتا ہے اور یہ اسٹال صحافیوں کا ایک اہم ٹھکانہ بھی ہے۔ اُنھوں نے اپنے متعلق بتایا کہ’’مجھے اسکول کی کتاب کے علاوہ ہر کتاب اچھی لگتی تھی، اِس لیے رسمی تعلیم تو ادھوری رہ گئی، مگر اِس اسٹال نے مجھے مطالعے کی راہ دِکھا دی۔مجھے مطالعے کا بے حد شوق ہے اور جیسے ہی کچھ فراغت ملتی ہے، کوئی اخبار، کتاب یا رسالہ پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ مَیں شاید واحد اخبار فروش ہوں، جو اخبارات کا بِل پیشگی ادا کرتا ہو۔‘‘’’کیا اب لوگ اخبار خریدنے نہیں آتے؟‘‘

اِس سوال پر اُنھوں نے دُکھی لہجے میں کہا۔’’ایک زمانے میں کراچی میں2260 اسٹالز ہوتے تھے اور اب کم ہوتے ہوتے محض 59اسٹالز رہ گئے ہیں، تو اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اخباری حلقہ کتنا سکڑ گیا ہے۔ اسٹالز سے اخبار خریدنے والے ایک تو وہ ہیں، جو کسی اشتہار یا کسی خاص خبر کی وجہ سے کوئی اخبار لیتے ہیں اور دوم، بزرگ افراد کہ اب ساٹھ سال سے زاید عُمر کے افراد ہی اخبار خریدتے ہیں، نوجوان تو کبھی کبھار ہی آتے ہیں۔ دیکھیں، یہ کہنا کہ لوگ مطالعے سے دُور ہوگئے ہیں، درست بات نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ مطالعے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ آخر لوگ اپنے موبائل فونز پر بھی تو بہت کچھ لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ بس، اخبارات اِس دوڑ میں پیچھے رہ گئے، شاید وہ حالات کی کروٹ کا ٹھیک طور پر اندازہ نہیں لگا سکے۔ پھر مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اخبارات کی قیمتوں پر نظرِثانی کی ضرورت ہے۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے کئی دیگر ذرایع اختیار کیے جاسکتے ہیں۔

نیز، حکومت کو’’جنگ‘‘ جیسے بڑے اخبارات کی سرپرستی کرنی چاہیے، جن سے بالواسطہ اور بلاواسطہ لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ اب بھی اِنہیں پڑھتے ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں، مگر یہاں اسٹال پر دیکھیں، چھوٹے چھوٹے اخبارات، جن کے ناموں سے بھی کوئی واقف نہیں، سرکاری اشتہارات سے بَھرے پڑے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ پالیسی وغیرہ کا کیا نظام ہے اور خود اخبارات والے اِس پر کیا رائے رکھتے ہیں، لیکن ایک اخبار فروش کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ اگر اِس طرح کے اشتہارات چھوٹے اور غیر معروف اخبارات کی بجائے بڑے اخبارات کو دئیے جائیں، تو یہ اخباری صنعت کے لیے زیادہ مناسب ہوگا۔

میرے اسٹال پر ایک بار محکمۂ اطلاعات کے افسران آئے، تو مَیں نے اُنہیں بھی یہی بات کہی کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پچاس ،ساٹھ کی تعداد میں چھپنے والے اخبارات سرکاری اشتہارات سے بَھرے پڑے ہیں اور بڑے اخبارات کے صفحات خالی ہیں۔‘‘محمّد انور نے اِس موقعے پر ہاکرز کے مسائل اور اُن کے ممکنہ حل کا بھی ذکر کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ’’کے ایم سی میرے اِس اسٹال کا ماہانہ تقریباً بیس ہزار روپے کرایہ وصول کرتی ہے۔ 

بجلی کا بِل الگ ہے۔ یہ معاملہ کسی طرح کمشنر کراچی کے علم میں آیا، تو اُنھوں نے مجھے اپنے دفتر بلوایا اور وہ کرائے کی رسیدیں دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اخباری اسٹال کا بھی اِتنا زیادہ کرایہ۔ اُنھوں نے بڑے تحمّل سے میری بات سُنی۔تاہم، ابھی تک مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اِس اسٹال کو ہٹانے کی بھی کئی بار کوششیں کی گئیں۔ سُنا ہے، کسی کمپنی کو یہ فُٹ پاتھ بیچا جا رہا ہے۔

بعض اوقات اخبار بیچنے والوں کو پولیس وغیرہ کی طرف سے بلاجواز تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کے تحفّظ کے لیے اخباری مالکان اور پریس کلب کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ گو کہ اخبار فروش، باقاعدہ صحافی تو نہیں ہیں، مگر اُن کا صحافتی اداروں سے تعلق تو ہے ناں، اِس لیے صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کو کوئی فوکل پرسن مقرّر کرنا چاہیے، جو اخبار فروشوں کی مدد کرسکے۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے ایک مشہور بُک اسٹال کو ہٹوا دیا گیا، وہاں اب لنڈے کے پاجامے بِک رہے ہیں۔ 

اب وہ شخص اخبارات کی بجائے بولٹن مارکیٹ میں لہسن، پیاز بیچ رہا ہے۔ اِسی طرح ایک اور اسٹال والا سڑک پر اخبارات رکھ کر بیچ رہا ہے۔ اِس ضمن میں مجھے اپنی تنظیم سے بھی شکوہ ہے کہ وہ بہت کم زور ہوگئی ہے، جب ایک بار اخبار فروشوں نے تنظیم کے ایک عُہدے دار سے پولیس اور بلدیاتی اہل کاروں کی شکایت کی، تو اُن کا جواب تھا’’یار! اب ان سے کون بات کرے، تم کوئی اور کام کرلو۔‘‘مَیں سمجھتا ہوں کہ اسٹال، اسٹال ہی رہنے چاہئیں۔

اخبار کے اسٹال پر ربڑ، پینسلز بھی نہیں ہونی چاہئیں، کیوں کہ اِس طرح یہ اسٹیشنری کی دکان بن جاتی ہے۔ اخبارات کی فروخت پر کمیشن ٹھیک ملتا ہے، اگر کام چلتا رہے، تو اخراجات پورے ہو ہی جاتے ہیں۔ حکومت نے کروڑوں روپے خرچ کر کے شہر کے مختلف مقامات پر بس اسٹاپس بنائے۔ آپ پوری دنیا گھوم لیں، اِس طرح کے مقامات پر اخباری اسٹالز نظر آئیں گے، مگر یہاں بس اسٹاپس گنے کا رس بیچنے اور پنکچر لگانے والوں کے حوالے کردئیے گئے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ ریلوے اسٹیشنز کے اندر کے اسٹالز بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں، جہاں آنے جانے والے اخبارات اور ڈائجسٹ وغیرہ خرید لیا کرتے تھے۔ جس طرح صحافیوں کو حکومتی سطح پر پلاٹس یا دیگر سہولتیں دی جاتی ہیں، اِسی طرح ہاکرز کو بھی کچھ دیا جانا چاہیے۔ سُنا ہے راول پنڈی، اسلام آباد میں ٹکا خان نے اخباری ہاکرز کے لیے کافی کام کیا ہے، مگر یہاں کراچی میں تنظیم کچھ نہیں کر سکی۔حالت یہ ہے کہ اخبار مارکیٹ تک پچھلے دنوں سیل ہوگئی تھی۔اسٹالز بڑھیں گے، تو اخبارات بِکنے کی راہ بھی نکلے گی۔ اِس لیے بس اسٹاپس، ریلوے اسٹیشنز اور بڑی مارکیٹس میں اخبارات کے اسٹالز ہونے چاہئیں۔‘‘

مشتاق احمد
مشتاق احمد

مشتاق احمد گزشتہ 34 برسوں سے گلی محلّوں میں گھوم پِھر کر اخبارات فروخت کرتے ہیں۔ اِس دوران اُنہوں نے کچھ مستقل گاہک بھی بنا لیے ہیں، جن کے گھروں یا دُکانوں پر مطلوبہ اخبارات پہنچاتے ہیں۔ہم نے اُنھیں’’پاکستان چوک‘‘ کے قریب اخبار بیچتے دیکھا، تو سلام دُعا کے بعد پوچھا’’ کام کیسا جا رہا ہے؟‘‘ اُنھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔’’ بس ٹھیک ہے، ٹھیک ہی ہے۔‘‘ گویا اُن کی اِس ہنسی اور انداز نے پوری کہانی سُنادی۔ اُنھوں نے بتایا’’ اب راہ چلتے افراد تو کم ہی اخبار خریدتے ہیں، البتہ جو لوگ ایک عرصے سے گھروں یا دُکانوں پر اخبار منگواتے چلے آرہے ہیں، اُن کی طرف سے یہ سلسلہ جیسے تیسے چل تو رہا ہے، مگر اِس میں بھی کافی کمی آئی ہے۔

البتہ، اب ایک کام یہ ہوا ہے کہ مَیں جن گھروں میں صبح سویرے اخبارات ڈالتا ہوں، اُن میں سے کئی ایک فون کر دیتے ہیں کہ فلاں دُکان سے ناشتا لیتے آنا یا بیکری سے یہ یہ چیزیں لیتے آنا، تو اِس طرح وہ مجھے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ مَیں صبح ساڑھے چار، پانچ بجے گھر سے نکلتا ہوں اور پیدل نیوچالی تک جاتا ہوں، جہاں سے اخبارات ملتے ہیں۔ پھر دوپہر کو تین، چار بجے تک پیدل ہی اخبارات فروخت کرتا پِھرتا ہوں، مگر اِتنی سخت محنت کے باوجود آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ سوچ رہا ہوں، کوئی اور کام دیکھ لوں، کیوں کہ میرے کئی جاننے والوں نے اخبار بیچنے کا کام چھوڑ کر دوسرے کام دھندے شروع کردئیے ہیں۔ میرا ایک جاننے والا، جو پہلے اخبار فروخت کرتا تھا، اب ایک ہوٹل میں کام کر رہا ہے اور اُس کے بقول ٹھیک دیہاڑی بن جاتی ہے، مگر وہ کہتا یہی ہے کہ بیس سال اخبار بیچ کر اب کسی دوسرے کام میں مزا نہیں آتا۔‘‘

عبدالباسط رحمانی
عبدالباسط رحمانی

عبدالباسط رحمانی گزشتہ پانچ دہائیوں سے اخبار فروخت کر رہے ہیں۔ اُن کا آئی آئی چندریگر روڈ پر اسٹال ہے۔ اُن کا شکوہ یہ ہے کہ بچّوں میں اخبار پڑھنے کا شوق ہی پیدا نہیں کیا جارہا۔ اُنھوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔’’اِس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اخبارات کے قارئین خاصے کم ہوئے ہیں، جس کے اثرات اخبار فروشوں پر بھی مرتّب ہو رہے ہیں کہ اُن کی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے اور اُن میں سے ایک بڑی تعداد یہ کام چھوڑ کر دوسرے مشاغل میں مصروف ہوگئی ہے، مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ہاں اخبار بینی بچّوں کی تعلیم و تربیت کا حصّہ نہیں رہی۔ 

پہلے والدین کی کوشش ہوتی تھی کہ اُن کے بچّے اخبارات، رسائل اور کتابیں پڑھیں، گھروں میں اِن موضوعات پر باتیں ہوتی تھیں، لیکن اب کتنے والدین ہیں، جو اپنے بچّوں سے نصابی تعلیم سے ہٹ کر اخبارات یا کتابوں کے مطالعے کی بات کرتے ہیں۔ شاید ایک آدھ فی صد ہی ایسے گھرانے ہوں گے، جہاں اب بھی یہ موضوعات زیرِ گفتگو آتے ہوں۔ اِسی طرح بچّے اسکولز کے دَور سے اخبار یا کسی رسالے میں کہانیاں، خطوط لکھتے، اُن کے مختلف سلسلوں میں حصّہ لیتے، والدین اور اساتذہ اُن کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے، بلکہ اُنھیں اِن کاموں پر اُبھارتے، مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ 

جب بچّے سے اخبار کی بات ہی نہیں ہو گی، اُسے نصابی کتابوں سے ہٹ کر کچھ پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہی نہیں کیا جائے گا، تو وہ بڑا ہو کر اخبار کا مستقل قاری کیسے بنے گا؟پھر اخبارات کو بھی ایسے سلسلے شروع کرنے چاہئیں، جن کے ذریعے نوجوان اِن کی جانب متوجّہ ہوں۔نیز، اخبارات کے ماہانہ بِلز پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، گو کہ یہ اِتنا زیادہ تو نہیں ہے، مگر جہاں لوگ پچاس روپے کا’’چائے کا کٹ‘‘ پی لیتے ہوں، لیکن اِتنے پیسے اخبار پر خرچ کرنے کو تیار نہ ہوں، وہاں اخبارات سستے کرکے بھی کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے۔‘‘

محمّد صدیق بابر
محمّد صدیق بابر

محمّد صدیق بابر 1975ء سے بطور ڈسٹری بیوٹر اخباری صنعت سے وابستہ ہیں۔ ہم فریئر روڈ( ریگل چوک، صدر سے برنس روڈ کی طرف آنے والی سڑک) پر واقع، اخبار مارکیٹ گئے، تو اُن سے ملاقات ہوگئی، جس کے دَوران اُنھوں نے اخبارات کی ترسیل کے نظام اور اِس ضمن میں درپیش مسائل پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی۔ محمّد صدیق بابر کا کہنا تھا کہ’’ کسی وقت کراچی میں17ڈسٹری بیوٹرز ہوا کرتے تھے، مگر اب محض سات رہ گئے ہیں اور اُن میں بھی کوئی ایسا نہیں ہے، جو اخبار مالکان کا مقروض نہ ہو، حالاں کہ پہلے یہی ڈسٹری بیوٹرز دو، دو ماہ کا بِل ایڈوانس دے دیا کرتے تھے۔

اصل میں زیادہ حالات کورونا لاک ڈاؤن سے خراب ہونا شروع ہوئے۔ خاص طور پر پوش علاقے زیادہ متاثر ہوئے، جہاں اخبارات و جرائد کی اچھی سیل تھی اور وہاں سے ریکوری کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اُن علاقوں میں اخبارات کے ساتھ میگزینز بھی جاتے تھے۔ پڑھیں، نہ پڑھیں، مگر وہ اپنے ڈرائنگ رومز میں اخبارات ضرور رکھتے تھے۔ اب ہوا یہ کہ ان علاقوں کے باسیوں نے کورونا کے دَوران طبّی نکتۂ نگاہ سے اخبارات کو چُھونا چھوڑ دیا کہ کہیں اِن میں وائرس نہ ہو۔ اِس سے ہوا یہ کہ اُن کی اخبار پڑھنے یا خریدنے کی عادت ہی ختم ہوگئی۔

پھر سوشل میڈیا نے بھی ریڈرشپ متاثر کی ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کسی اخبار کا مالک دس، پندرہ رپورٹرز اور چند فوٹو گرافرز رکھ لے گا، لیکن سوشل میڈیا نے تو لاکھوں رپورٹرز اور فوٹو گرافرز بنا دئیے ہیں، اب اخباری مالکان ان کا مقابلہ کیسے کریں؟ جو خبر اخبار میں دوسرے روز شایع ہوتی ہے، لوگ گھنٹوں پہلے اُس معاملے سے آگاہ ہوچُکے ہوتے ہیں، اِس طرح اُنھیں اخبار پرانا لگتا ہے۔

لوگ سوشل میڈیا پوسٹ پر اپنی رائے کا اظہار بھی کرچکے ہوتے ہیں اور لازمی بات ہے، اخبارات کسی واقعے کی اِتنی کوریج تو نہیں کرسکتے کہ اُن کی گنجائش بہرحال کم ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ پورے پاکستان میں اور ہر شہر میں اخبارات کا ایک سیل پوائنٹ ہوتا ہے، جیسے لاہور، راول پنڈی وغیرہ میں ہے۔ یہاں سے حیدرآباد چلے جائیں، وہاں بھی ایک ہی سیل پوائنٹ ملے گا۔جہاں ڈسٹری بیوٹر اخبارات رکھ کر بیٹھ جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہیلپر رکھ لیتا ہے۔ 

ہاکرز وہاں آکر اپنے اپنے گاہکوں کے حساب سے اخبارات لے جاتے ہیں، مگر کراچی میں ایسا نہیں ہے۔یہاں 27سیل پوائنٹس ہیں، جہاں ڈسٹری بیوٹرز کو اخبارات پہنچانے پڑتے ہیں۔ اخبارات پریس سے نیو چالی آتے ہیں، جو اِن کی تقسیم کا مرکز ہے۔ اب یہاں سے ہماری گاڑیاں اخبارات لے کر نکلتی ہیں اور ہر سیل پوائنٹ تک بنڈل پہنچاتی ہیں۔ واپسی میں یہ گاڑیاں بچے ہوئے اخبارات اُٹھا لاتی ہیں، جس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم سے ہاکرز نے کتنا اخبار خریدا۔ 

اِس طرح کراچی کا ڈسٹری بیوٹر بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے کہ اُسے شہر بھر کے 27پوائنٹس تک اخبار پہنچانے کے لیے گاڑیوں، اُن کے فیول، ڈرائیورز، سیلز مین اور دیگر عملے کے بھی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں، جو باقی شہروں میں نہیں ہوتے۔ہمیں اِس مقصد کے لیے کم از کم پانچ سوزوکیاں چلانی پڑتی ہیں اور ہر مقام پر ہمارا عملہ بھی موجود ہوتا ہے۔ اب سیل پوائنٹس تک اخبارات پہنچانے کے لیے تو ہمارے اخراجات وہی ہیں، بلکہ وقت کے ساتھ بڑھ گئے ہیں، لیکن فروخت کم ہونے سے آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ 

اِس طرح کراچی کا اخباری ڈسٹری بیوٹر مالی طور پر نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔لاک ڈاؤن سے پہلے اخبار فروشوں کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی اور اب ان کی تعداد آٹھ سو رہ گئی ہے، جن میں اسٹالز والوں کے ساتھ گھوم پھر کر اخبار بیچنے والے بھی شامل ہیں۔ اِن میں جو نوجوان تھے، اُن کی ایک بڑی تعداد فوڈ ڈیلیوری بوائے بن گئی، بائیکیا وغیرہ کی طرف چلی گئی یا کوئی اور جاب کرلی۔ پھر یہ کہ ہماری پورے سال میں محض چھے چھٹیاں ہیں۔ گھر میں کچھ بھی ہوجائے، ہمیں اخبار کے لیے ہر صُورت صبح مارکیٹ جانا ہوتا ہے۔ 

جہاں تک خریداروں کی بات ہے، تو اب اخبار خریدنے والے ایک تو وہ ہیں، جو دفاتر کے لیے لیتے ہیں، جہاں اِنہیں میٹنگ یا ویٹنگ ایریاز میں ڈسپلے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ بعض گھرانے ایسے ہیں، جہاں اخبار لیا تو جا رہا ہے، مگر پڑھا نہیں جاتا، وہ صرف اِس لیے لے رہے ہیں کہ’’ ابّا کے زمانے سے اخبار ڈال رہا ہے، چلو ہزار روپے کی بات ہے، خیر ہے۔‘‘ گویا، جو اخبارات فروخت ہوتے ہیں، اُن میں سے بھی آدھے پڑھے نہیں جاتے۔

کوئی ہاکر کی عُمر دیکھ کے یا مدّتوں سے جو تعلق بنا ہوا ہے، اُس کی بنیاد پر اخبار خرید رہا ہے۔‘‘ محمّد صدیق بابر نے مسائل کے حل کے ضمن میں رائے دی کہ’’ایک زمانے میں مالکان سے مہینے میں دو، تین ملاقاتیں ہوجاتی ہیں، مگر اب یہ سلسلہ سالوں پر محیط ہوگیا ہے۔ اِس طرح کی ملاقاتیں اِس لیے ضروری ہیں کہ اس سے مسائل کی نشان دہی اور حل کے طریقے سامنے آجاتے ہیں۔پھر یہ کہ ہمیں وقت کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ 

اب اخبارات کا ٹارگٹ وہ طبقہ ہونا چاہیے، جو سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے اور اِسی بنیاد پر پالیسی طے کرنی ہوگی تاکہ اس طبقے کو اخبارات کی طرف لایا جاسکے۔ لازمی امر ہے، اِس مقصد کے لیے اخبارات میں وہ مواد شامل کرنا ہو گا، جو سوشل میڈیا نہیں دے پا رہا۔ہمارے اخبارات کے صفحات اب بھی علاقائی خبروں یا بیانات سے بھرے ہوتے ہیں، حالاں کہ یہ خبریں عوام کو سوشل یا الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ اچھے طور پر پہلے ہی مل جاتی ہیں۔

جہاں تک حکومتی تعاون کا سوال ہے، تو اگر کوئی حکومت کے دروازے پر جائے گا، تو اُسے کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔ اِس مقصد کے لیے تنظیمیں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، مگر اس کے لیے لیڈرشپ کی ضرورت ہوتی ہے، اپنا وقت دینا پڑتا ہے۔ اب اخبارات کی سرکولیشن کم ہونے سے اخبار فروشوں کی تنظیمیں اور اُن کی قیادت بھی کچھ ٹھنڈی پڑ گئی ہیں۔نیز، قیمت کا عُنصر بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ 

اصل میں مالکان کو اپنے اخراجات، اخبارات کی فروخت یا قیمتوں کے ساتھ ملا کر نہیں دیکھنے چاہئیں۔ اب میں زیادہ کیا کہوں، بس یہ دیکھ لیں کہ صرف سولہ، سترہ اخبارات ہی سیل پر موجود ہیں، لیکن ایک سو سے زاید اخبارات ایسے بھی شایع ہوتے ہیں، جن کی کاپیز صرف چند مخصوص مقامات تک جاتی ہے اور اُن میں بے تحاشا اشتہارات ہوتے ہیں، اب اِس معاملے کو تو مالکان ہی بہتر طور پر حل کرسکتے ہیں۔

اخبار فروش کو چالیس فی صد کمیشن ملتا ہے، جو کم نہیں ہے۔ یعنی ایک ہزار روپے پر چار سو روپے۔ لیکن اِس کے لیے اُسے صبح سویرے مارکیٹ جاکر اخبار لانا پڑتا ہے، پھر اُسے اسٹال پر کوئی ایسا شخص چاہیے، جو صبح سے شام تک وہاں بیٹھا رہے۔ اب وہ خود بیٹھے گا یا پھر کوئی بچّہ یا بڑی عُمر کا شخص اِس کام کے لیے تلاش کرنا ہوگا، جو تین سو روپے دیہاڑی پر پورا دن اسٹال پر بیٹھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہزار روپے کی بھی سیل نہیں ہوپاتی، تو اب وہ کیسے اپنے مالی معاملات ترتیب دے۔ ‘‘

9 ستمبر کی صبح جب کراچی کی سڑکیں بارش کے پانی سے ڈوبی ہوئی تھیں، ایک شخص اُس وقت بھی برنس روڈ پر اخبار فروخت کرتا نظر آیا۔ رات بھر جاری رہنے والی بارش، اب بھی پورے جوبن پر تھی۔ اِس لیے اُس ہاکر نے اخبارات بارش سے بچانے کے لیے پلاسٹک کی تھیلی میں محفوظ کر رکھے تھے۔ وہ چائے پینے یا پھر کچھ سَستانے کے لیے ہوٹل میں بیٹھے، تو ہم نے پوچھا’’سڑکیں، سمندر بنی ہوئی ہیں اور آسمان سے پانی برس رہا ہے، ایسے میں بھی آپ اخبار بیچ رہے ہیں؟‘‘ یہ سُن کر وہ ہماری طرف متوجّہ اور گویا ہوئے۔’’ بھائی کام ہی ایسا ہے۔

محمد راشد برستی بارش کے دورانبھی اخبار فروخت کررہے ہیں
محمد راشد برستی بارش کے دوران
بھی اخبار فروخت کررہے ہیں

ہمارا تو چند گھنٹوں کا گیم ہوتا ہے، اگر اُس دوران اخبار بیچ لیے تو ٹھیک، وگرنہ اخبار ردّی بن جاتا ہے۔‘‘ ’’ صبح گھر سے کتنے بجے نکلے تھے اور کب تک گھر واپسی ہوگی؟‘‘ اِس سوال پر اُنھوں نے بتایا۔’’ عام دنوں میں تو صبح ساڑھے چار بجے گھر سے نکلتا ہوں، مگر رات سے بارش ہو رہی تھی، اِس لیے ایک گھنٹہ پہلے ہی گھر سے نکل پڑا، کیوں کہ راستے میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ہی چلا جاسکتا ہے۔ 

مَیں لائنز ایریا میں رہتا ہوں اور وہاں سے پیدل ہی نیو چالی جاتا ہوں کہ اِتنی صبح سڑکوں پر گاڑیاں تو ملنے سے رہیں۔ وہاں سے اخبارات اُٹھا کر مختلف پوائنٹس پر پیدل ہی بیچتا پِھرتا ہوں، کبھی سارے بِک جاتے ہیں، کبھی بچ بھی جاتے ہیں۔ پہلے مارکیٹ سے اِتنے اخبارات لیتا تھا کہ سنبھالے نہیں جاتے تھے اور اب آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ایک تھیلی جتنے اخبارات ہیں۔

اِن کو بیچتے بیچتے بارہ تو بج ہی جاتے ہیں۔‘‘ ہم نے پوچھا۔’’ گزارہ تو ہو جاتا ہوگا؟‘‘محمد راشد نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ اللہ کا بہت کرم ہے۔البتہ، پہلے صرف اخبارات کی فروخت ہی سے گھر چل جاتا تھا، مگر اب دال روٹی کے لیے کچھ اور بھی جتن کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

کچھ تجاویز، سفارشات

* اخبار فروشوں، اخبار مالکان اور صحافتی تنظیموں کے درمیان روابط میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے، جس کے سبب محض ایک فون کال پر حل ہونے والے مسائل بھی پیچیدہ شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ لہٰذا، اِس طرح کے روابط میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔

* اخبار فروشوں کو بھی لیبر قوانین کے تحت حاصل تمام سہولتیں ملنی چاہئیں۔ اِس ضمن میں تمام صحافتی تنظیموں کی ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی جائے، جو حکّامِ بالا تک اِس طرح کے معاملات پہنچا سکے۔

* اخبار فروشوں کی تنظیم کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کرنا ہوگا تاکہ اِس کے ارکان کو اپنائیت کا احساس ہو اور منظّم طور پر آگے بڑھ سکیں۔

* سرکاری دفاتر، کتب خانوں، تعلیمی اداروں سمیت ایسے تمام مقامات پر، جہاں لوگوں کو کسی کام کے سلسلے میں کچھ دیر بیٹھ کر انتظار کرنا پڑتا ہو، اخبارات کی موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔ اِس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی اداروں کا تعاون درکار ہوگا۔

* اخباری اسٹالز کو ہر صُورت تحفّظ فراہم کیا جائے اور کسی بھی شکایت کی صُورت میں اخبار فروش تنظیم کو اعتماد میں لیا جائے۔

* بس اسٹاپس، ریلوے اسٹیشنز، بڑی مارکیٹس سمیت عوامی مقامات پر نیوز پیپر اسٹالز کے لیے جگہیں مختص کی جائیں۔

* اخبارات کی فروخت میں کیسے اضافہ ممکن ہے؟ اِس ضمن میں اخبار فروشوں کی تجاویز پر بھی سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے کہ اُن کا قاری سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔

اخبار فروش کے کئی مسائل حل کروائے، اب بھی ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہیں: سرمد علی صدر اے پی این ایس

سرمد علی، ’’جنگ میڈیا گروپ‘‘ سے بطور مینیجنگ ڈائریکٹر وابستہ ہیں، جب کہ سندھ سے ایوانِ بالا(سینیٹ) کے رُکن بھی ہیں۔ اُنہیں مارکیٹنگ، اشتہارات اور میڈیا مینیجمنٹ کا 35سالہ طویل تجربہ حاصل ہے۔ آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی(اے پی این ایس) کے صدر ہیں، جب کہ میڈیا سے متعلق کئی عالمی تنظیموں میں بھی نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ 

سرمد علی ایک عرصے سے اخباری صنعت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے نہایت متحرّک کردار ادا کر رہے ہیں۔ اِن ہی مثالی خدمات پر اُنہیں ستارۂ امتیاز سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ ہم نے اخباری ہاکرز اور اُن کے تنظیمی عُہدے داران سے ہونے والی گفتگو میں سامنے آنے والے اہم نکات سرمد علی کے سامنے رکھے، جن کا اُنھوں نے بہت تفصیل سے جواب دیا کہ جس سے صُورتِ حال سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

س: ہاکرز کا خیال ہے کہ اب مالکان اُن سے اُس طرح کا رابطہ نہیں رکھتے، جیسے ماضی میں رکھا جاتا تھا، اِسی سبب بہت سے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی حل نہیں ہوپاتے؟

ج: کم ازکم روزنامہ’’ جنگ‘‘ کے ضمن میں تو مَیں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا اخبار فروشوں کے ساتھ مستقل رابطہ رہتا ہے۔ کراچی میں اقبال نون ہوں یا حمید ڈاڈا اور چوہدری نذیر، لاہور میں چوہدری عاشق ہوں یا اسلام آباد میں ٹکا خان صاحب، عقیل عباسی یا اُن کے دیگر ساتھی، ہمارا سب سے رابطہ رہتا ہے۔ 

باقی اخبارات کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر میرا خیال ہے کہ اُن کا بھی کسی حد تک رابطہ رہتا ہے۔نیز، اے پی این ایس اور اخبار فروش فیڈریشن کی قیادت پر مشتمل ایک جوائنٹ کمیٹی بھی ہے، جس کے پلیٹ فارم سے مسائل کے حل کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

س: چوں کہ اخبار مالکان کی اعلیٰ حکّام تک زیادہ رسائی ہوتی ہے، اِس لیے اگر وہ چاہیں، تو حکومت سے اخبار فروشوں کو بہت سی بنیادی سہولتیں دِلوا سکتے ہیں، جیسے اُنھیں باقاعدہ لیبر کا اسٹیٹس دِلوانا، جس سے اُنھیں صنعتی مزدور کی طرح سہولتیں مل سکتی ہیں اور اُن کی بھی ہیلتھ کارڈ، انشورنس، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ میں شمولیت ممکن ہے؟

ج: بالکل اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ اخباری مالکان اور اخباری تنظیموں کے حکومتی ارکان سے زیادہ تعلقات ہوتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ اخبار فروشوں کے مسائل حل کروانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اِس ضمن میں اخبار فروشوں کی جانب سے جو بھی مسائل ہمارے علم میں لائے جاتے ہیں، ہم اُن کے حل کی بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر حکومت کی جانب سے ایک وقت میں موٹر سائیکلز کے استعمال پر پابندیاں عاید کی گئیں، تو ہم نے اخبار فروشوں کو اِس طرح کی پابندیوں سے استثنیٰ دِلوایا۔ اِسی طرح جب سرکاری دفاتر میں اخبارات خریدنے پر پابندی عاید کی گئی، تو ہم نے اخبار فروشوں کے ساتھ مل کر اُس پابندی کا خاتمہ کروایا۔ ہاں، یہ درست ہے کہ ہم انہیں لیبر کا اسٹیٹس دِلوانے میں ناکام رہے ہیں، مگر ان کی فیڈریشن یا کراچی اور لاہور کی یونینز کی جاب سے کبھی یہ بات ہمارے علم میں نہیں لائی گئی کہ وہ لیبر کا اسٹیٹس چاہتے ہیں۔

یہ بات پہلی بار آپ کے سوال کے ذریعے ہمارے سامنے آئی ہے۔مَیں، اے پی این ایس کے صدر کے طور پر پوری کوشش کروں گا کہ انہیں یہ اسٹیٹس دِلوایا جاسکے۔ جہاں تک ہیلتھ کارڈ کی بات ہے، تو یہ اِنہیں دئیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ وہ خود کو رجسٹر کروالیں۔ میرا خیال ہے، کافی اخبار فروشوں نے خود کو رجسٹر کیا بھی ہے اور اگر کسی نے نہیں کیا، تو اُن سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے آپ کو لازمی طور پر رجسٹر کروالیں، جب کہ اِس معاملے میں بھی ہم مکمل تعاون فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ 

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ایک مخصوص کرائی ٹیریا ہے، جب کہ یہ بات بھی پہلی بار میرے علم میں آئی ہے کہ اخبار فروش اِس پروگرام کا حصّہ بننے میں دل چسپی رکھتے ہیں، تو مَیں انکم سپورٹ پروگرام کی چئیر پرسن، سینیٹر روبینہ خالد سے اِس ضمن میں بات کروں گا تاکہ اگر اخبار فروشوں کو یہ سہولت مل سکتی ہو، تو ضرور ملے۔ مجھے یاد ہے کہ جب کورونا کی وبا پھیلی اور پھر سندھ میں سیلاب آیا، تو اقبال نون نے مجھ سے اخبار فروشوں کو راشن کی فراہمی کی بات کی، تو ہم نے حکومتِ سندھ سے اُنہیں یہ سہولت فراہم کروائی۔

س: اخبار فروشوں کا خیال ہے کہ اخبار کا ماہانہ بِل زیادہ ہے۔ مالکان اپنے اخراجات، اخبار کی قیمت سے مشروط نہ کریں بلکہ اشتہارات وغیرہ سے اخراجات پورے کرکے اخبار کی قیمت کم کی جائے؟

ج: مَیں اِس سے اتفاق کرتا ہوں کہ اخبارات کی قیمتیں کم ہونی چاہئیں، لیکن اِس معاملے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اخباری صنعت، مُلک کی واحد صنعت ہے، جس کے لیے 80فی صد سے زاید خام مال باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ خواہ وہ کاغذ ہو، فلمز ہوں، یا پلیٹس اور سیاہی۔ اِن سب اشیاء کا بِل ڈالرز میں ادا کرنا پڑتا ہے اور جب ڈالر کی قیمت بڑھے گی، تو اُس کے اثرات سب چیزوں پر مرتّب ہوں گے۔ 

اب کاغذ ہی کو دیکھ لیں۔ایک تو دنیا میں اِس کی قیمت بڑھ گئی اور پھر جو کارخانے یہ اخباری کاغذ بناتے تھے، وہ بند ہوگئے یا اُنہوں نے فینسی پیپرز بنانے شروع کردئیے۔ اب ہوا یہ کہ ایک طرف ڈالر منہگا ہوگیا اور دوسری طرف باہر سے آنے والا کاغذ بھی منہگے داموں ملنے لگا۔جب ڈالر کا ریٹ150 تھا، اُس وقت دباؤ کی نوعیت کچھ اور تھی، جب وہ 280روپے تک پہنچ گیا، تو حالات کچھ سے کچھ ہوگئے۔ 

یہ ایک ایسی صُورتِ حال ہے، جس میں اخبار کی قیمت بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ جہاں تک اشتہارات سے اخراجات پورے کرنے کی بات ہے، تو جی ہاں، اخبارات کا بزنس ماڈل یہی تھا کہ اشتہارات ہی کے ذریعے اخراجات پورے کیے جاتے تھے، لیکن2018ء کے بعد سے دیکھیں، تو اشتہارات کا حجم بہت کم ہوگیا ہے، بالخصوص کمرشل اشتہارات، جو اخبارات کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں، کافی کم ہوگئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، پچھلے پانچ برسوں میں اخبارات کے ریونیو میں تقریباً چالیس فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا، اب اخبارات اِس پوزیشن میں نہیں رہے کہ صرف اشتہارات کے بل بُوتے پر خود کو زندہ رکھ سکیں۔

س: اخبار فروشوں کو بھی ایوارڈز دئیے جانے چاہئیں تاکہ اُن کی حوصلہ افزائی ہو؟

ج: مَیں اِس سے سو فی صد کیا، ڈیڑھ سو فی صد اتفاق کرتا ہوں اور جب اے پی این ایس کے اگلے ایوارڈز ہوں گے، تو مَیں اپنی ایگزیکٹیو کمیٹی سے سفارش کروں گا کہ اخبار فروشوں کو اُن کی خدمات کے عوض لائف ٹائم اچیومینٹس ایوارڈز دئیے جائیں۔

فرانس میں پاکستانی ہاکر 73سالہ علی اکبر کے لیے اعلیٰ سِول ایوارڈ

راول پنڈی سے تعلق رکھنے والے73سالہ علی اکبر پیرس کے فیشن ایبل علاقے، لیٹن کوارٹر کی سڑکوں، ریستورانوں اور دیگر مقامات پر 1973ء سے اخبار فروخت کر رہے ہیں، جس پر گزشتہ دنوں وہاں کی حکومت نے اُنھیں فرانس کے اعلیٰ سِول ایوارڈ’’دی نیشنل آرڈر آف میرٹ‘‘ سے نوازا۔

دراصل یہ ایوارڈ علی اکبر کی اَن تھک محنت کے ساتھ، پیشے سے وابستگی کا اعتراف ہے کہ ایک ایسے دَور میں، جب پرنٹ میڈیا بدترین بحران کی لپیٹ میں ہے، وہ اخبار بینی کی روایت زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اُنھیں’’پیرس کا آخری ہاکر‘‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اِس ضمن میں اُن کے دل چسپ انداز کا خاص طور پر ذکر کیا جارہا ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اخبار کی طرف متوجّہ کرتے ہیں۔

اُن کا ایک خبررساں ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ’’مَیں مزاحیہ جملے بولتا رہتا ہوں، جس پر لوگ ہنستے ہیں اور میری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مَیں لوگوں کے دِلوں میں اُترنے کی کوشش کرتا ہوں، جیبوں میں نہیں۔‘‘واضح رہے، اِس ساری تگ و دو کے باوجود، وہ آٹھ گھنٹوں میں محض 20 اخبارات ہی بیچ پاتے ہیں۔

صبح سے رات تک’’مزدوری‘‘ کرنے والے اخبار فروش کو’’لیبر‘‘ ہی تسلیم کرلیا جائے، تو کئی مسائل حل ہوجائیں، محمّد اقبال نون

محمّد اقبال نون گزشتہ15برسوں سے مرکزی انجمن اخبار فروشاں، کراچی کے صدر ہیں، جب کہ اِنہیں حالیہ دنوں میں آل پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کا صدر بھی نام زَد کیا گیا ہے۔ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہونے کے باعث کچھ عرصے سے فعال کردار ادا نہیں کر پا رہے تھے، تاہم اب صحت بہتر ہونے پر دوبارہ متحرّک ہوگئے ہیں۔ اِن دنوں اخبار فروش کن حالات سے گزر رہے ہیں؟

ان کے مسائل کی نوعیت کیا ہے اور اِس ضمن میں تنظیم کی کیا سرگرمیاں ہیں؟ ہم نے اِسی طرح کے دیگر سوالات اُن کے سامنے رکھے، تو اقبال نون نے بتایا’’ہمارے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد تقریباً تین ہزار ہے، جن میں سے تقریباً اٹھارہ سو اب بھی کسی نہ کسی حیثیت میں اخبارات کی فروخت سے وابستہ ہیں، لیکن آمدنی میں کمی کے باعث یہ شعبہ چھوڑنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 

اِسی طرح کُل وقتی اسٹالز لگانے والے بھی کم ہی رہ گئے ہیں، زیادہ تر افراد چند گھنٹے یہ کام کرنے کے بعد دوسرے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یہ معاملہ صرف کراچی کا نہیں ہے، بلکہ حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص، لاڑکانہ یا پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے کسی بھی شہر کا جائزہ لیں، تو یہی حالات دیکھنے کو ملیں گے۔چھوٹے شہروں کے ہاکرز تو اِس لحاظ سے زیادہ پریشان ہیں کہ اُن کے پاس بڑے شہروں کی نسبت، معاش کے دیگر مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 

دیکھیں، آندھی ہو یا طوفان، اخبار فروش صبح چار، پانچ بجے گھروں سے نکلتے ہیں، مارکیٹ سے اخبارات اُٹھاتے ہیں، پھر جیسے مرغی اپنے بچّوں کو پَروں میں سمیٹ کر رکھتی ہے، بالکل ویسے ہی یہ اخبارات کو اپنے سینے سے لگا کر گھروں، دُکانوں تک پہنچتے ہیں۔ اُنھیں بڑی ترتیب اور سلیقے سے اپنے اسٹالز پر سجاتے ہیں۔ اُنھیں ایک خاص وقت کے اندر اندر یہ سب کام کرنے ہوتے ہیں، کیوں کہ اگر وہ کسی تک تاخیر سے اخبار پہنچائیں، تو اُنھیں بہت کچھ سُننا پڑتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اِس قدر محنت اور ذمّے داری سے کام کے باوجود اُنھیں کیا ملتا ہے؟مَیں یہ نہیں کہتا کہ کمیشن کم ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ ہاکر وقت کتنا دیتے ہیں۔ اِس کے ساتھ دیگر معاملات بھی جُڑے ہوئے ہیں، اُنہیں بھی دیکھنا پڑے گا۔ 

فروخت کم ہونے سے آمدنی بہت محدود ہوگئی ہے۔ پھر ریکوری مستقل دردِ سر ہے۔ اخبار کا ماہانہ بِل لینے جاتے ہیں، تو سامنے سے کہا جاتا ہے۔’’ بیگم گھر پر نہیں ہیں‘‘،’’ ابّو باہر گئے ہوئے ہیں‘‘،’’ ابھی تن خواہ نہیں ملی‘‘ مطلب پیسے لینے کے لیے بار بار چکر لگانے پڑتے ہیں اور یوں کئی کئی ماہ کا بِل چڑھ جاتا ہے۔ اب اُن کا اخبار بند کریں، تو پچھلے پیسے مارے جاتے ہیں، جب کہ کئی بار گاہک گھر ہی بدل لیتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ صبح سویرے سے رات تک، محنت مزدوری کرنے والے اخبار فروشوں کو باقاعدہ’’لیبر‘‘ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ 

اگر انہیں سرکاری طور پر لیبر کا اسٹیٹس دے دیا جائے، تب بھی کئی مسائل حل ہوجائیں۔ جیسے انشورنس، ہیلتھ کارڈ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شمولیت، ان کے بچّوں کو صنعتی کارکن کے کوٹے سے تعلیم، صحت اور ملازمتوں کی سہولتیں وغیرہ۔اِس ضمن میں ہم نے صوبائی وزیر، شرجیل میمن کو خط لکھا ہے اور وزیرِ اعلیٰ سندھ سے بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ 

کراچی کی اخبار مارکیٹ، وزیرِ اعلیٰ سندھ، سیّد عبداللہ شاہ نے اپنے خصوصی فنڈ سے تعمیر کروائی تھی، لہٰذا ہم مُراد علی شاہ سے بھی اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے والد کی طرح اخبار فروشوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے میڈیا ورکرز کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور اب بھی ان کے مسائل حل کیے جا رہے ہیں، ہماری خواہش اور مطالبہ ہے کہ اِن ورکرز میں اخبار فروشوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اِس ضمن میں اخبار مالکان، صحافیوں کی تنظیمیں اور پریس کلب بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ اُن کی اعلیٰ حکّام تک زیادہ رسائی ہوتی ہے۔

اگر وہ وزیرِ اعلیٰ اور دیگر حکّام تک یہ معاملات پہنچائیں، تو اِن کا بہتر حل نکل سکتا ہے۔ بلوچستان میں اِس کی مثال موجود ہے، جہاں پریس کلب عُہدے داران نے وزیرِ اعلیٰ، محمّد اسلم رئیسانی کو اخبار فروشوں کے مسائل سے آگاہ کیا، تو اُنھوں نے فوری طور پر ورکرز فنڈ قائم کردیا، جس کے لیے باقاعدہ بجٹ میں رقم مختص کردی گئی۔ اب اُس فنڈ سے وہاں کے ہاکرز کی مختلف مواقع پر مدد کی جاتی ہے۔ 

ایسا باقی صوبوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں اخباری صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، تو صحافتی تنظیموں کو یہ ہڈی سیدھی رکھنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اِس مقصد کے لیے آپس میں ملاقاتیں ہونی چاہئیں تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ ویسے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ایک پاکستانی اخباری ہاکر کو فرانس کی حکومت بڑے اعزاز سے نواز سکتی ہے، تو یہاں کا ہاکر اِس عزت و تکریم اور اعزاز سے کیوں محروم ہے؟ اخبار فروشوں کو تجاوزات کے نام پر بھی تنگ کیا جاتا ہے۔ 

کراچی کی مثال لے لیں۔یہاں کے اسٹال ہولڈرز کے پاس50سال سے کمشنر کے اجازت نامے موجود ہیں، جن کی ہر نیا آنے والا کمشنر توثیق کرتا رہا ہے اور اس کا تمام ریکارڈ کمشنر آفس میں موجود بھی ہے، مگر اِس کے باوجود اخبارات کے اسٹالز گرانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

اِسی طرح باقی شہروں کے اخبار فروشوں کو بھی اخبار مارکیٹس یا چھت کی فراہمی ضروری ہے تاکہ وہ سردی یا بارش میں وہاں بیٹھ کر اخبارات کی ترسیل کا عمل اچھی طرح سے سرانجام دے سکیں۔ اِس ضمن میں بھی اخباری مالکان اور صحافتی تنظیمیں اخبار فروشوں کی مدد کرسکتی ہیں تاکہ وہ بلاخوف و خطر اپنا کام جاری رکھ سکیں۔‘‘

25 ستمبر، یومِ اخبار بینی

یہ کوئی راز نہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان سمیت دنیا بَھر میں اخباری صنعت اپنی بقا کی چومکھی لڑ رہی ہے۔ یورپ ہو یا برطانیہ یا پھر امریکا، حالیہ برسوں کے دَوران بڑے بڑے اخبارات اپنے آخری شمارے شایع کر کے، دفاتر پر تالے ڈال چُکے، جب کہ جو باقی ہیں، وہ بھی سمٹتے جا رہے ہیں۔ 

ایسے میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی(اے پی این ایس) نے 2019ء میں فیصلہ کیا کہ ہر سال25 ستمبر کو’’ National Newspaper Readership Day‘‘ منایا جائے تاکہ عوام، بالخصوص نوجوان نسل میں اخبارات کے مطالعے کی عادت فروغ پاسکے۔25 ستمبر کا تعیّن امریکا سے 1960ء میں اِس تاریخ سے شایع ہونے والے پہلے کثیر صفحاتی اخبار’’Publick Occurrences Both Forreign and Domestick‘‘کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ 

تاہم، اِس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ یہ دن قدرے خاموشی سے گزر جاتا ہے اور اِس روز عموماً اُس طرح کی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں، جس طرح مختلف عالمی ایّام کے موقعے پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ اب اخبار پڑھا ہی نہیں جاتا، کئی ممالک میں صبح، شام کے اخبارات اب بھی ایک، ایک کروڑ کی تعداد میں شایع ہو رہے ہیں۔اِس ضمن میں جاپان کی مثال دی جاسکتی ہے، جہاں ہر شخص کو ٹیکنالوجی نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، مگر اِس کے باوجود، وہاں دنیا میں شاید سب سے زیادہ اخبارات پڑھے جاتے ہیں۔

اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کسی فرد کو اخبار بینی کی عادت پڑجائے، تو پھر موبائل فون بھی اُس کے ہاتھ سے اخبار نہیں چھین سکتا۔ البتہ، اِس مقصد کے لیے جہاں نئی نسل کو اخبارات کے مطالعے کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرنا ضروری ہے، وہیں ایسی سرگرمیوں کو بھی فروغ دینا ہوگا، جن کے ذریعے وہ اخبارات سے وابستہ ہو سکیں۔ 

اِسی طرح خود اخبارات کے لیے بھی پالیسی سطح پر بڑے فیصلے ناگزیر ہوچُکے ہیں کہ اِس کے بغیر نئی نسل کو اخبارات کی جانب متوجّہ نہیں کیا جاسکتا۔’’اخبار بینی‘‘ جیسے ایّام منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ایک طرف اخبارات کے مطالعے کی روایت زندہ کی جائے، تو دوسری طرف، غور و فکر کے نئے دروازے بھی کھولیں جائیں، جن کی روشنی میں نئے دَور کے ساتھ چلا جاسکے۔

اوکاڑہ کے اخبار فروش کی بیٹی کے ایم بی بی ایس میں 7 گولڈ میڈلز

مئی 2023ء میں یہ خوش کُن خبر سامنے آئی کہ اوکاڑہ کے ایک اخبار فروش، محمّد انور کی بیٹی، فاخرہ نے ایم بی بی ایس میں ایک نہیں، دو نہیں، پورے سات گولڈ میڈلز حاصل کرکے تاریخ رقم کردی۔ 

سوشل میڈیا پر آنے والی تفصیلات کے مطابق، تقریباً نصف صدی سے اخبارات بیچنے والے محمّد انور خود صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکے اور پھر معاشی مسائل کے سبب اخبار بیچنے شروع کردئیے تھے۔

اِن کی دیگر دو بیٹیوں نے بھی کیمسٹری اور زوآلوجی میں ایم فِل کیا، جب کہ دونوں بیٹے بھی ماسٹرز ڈگریز کے حامل ہیں۔ محمّد انور کی یہ کہانی باقی اخبار فروشوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ مشکل حالات کے باوجود اپنے بچّوں کو اعلیٰ تعلیم دِلوا سکتے ہیں، تو دوسری طرف، عام افراد کے لیے بھی عزم و ہمّت کی اِس داستان میں واضح پیغام موجود ہے کہ وہ اخبار فروشوں کو حقارت بَھری نظروں سے نہ دیکھیں کہ یہ محنت کش ہرگز کسی سے کم نہیں ہیں۔