انصار عباسی اسلام آباد :…وزیرِاعظم شہباز شریف نے وفاقی دارالحکومت میں مبینہ زمین پر قبضے کے ایک بڑے کیس کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دیدی ہے۔ یہ معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب ایک ممتاز سابق بیوروکریٹ اور ماہر تعلیم نے شکایت کی کہ اسلام آباد میں ان کی 136؍ کنال سے زائد اراضی پر فراڈ سے قبضہ کر لیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، جے آئی ٹی کی قیادت قیادت ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کریں گے جبکہ اس میں آئی ایس آئی، پاک بحریہ، ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ ٹیم کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فارنزک تحقیقات کر کے جلد اپنی رپورٹ جمع کرائے۔ شکایت گزار افسر ڈاکٹر مشرف رسول سیان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (سابق ڈی ایم جی) سے رہا ہے۔ انہوں نے 1990ء کے سی ایس ایس امتحان میں 1084؍ نمبر حاصل کیے تھے، جو تاحال ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں وزیرِاعظم کو شکایت کی ہے کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری رجسٹریشن آفس کے اہلکاروں اور لینڈ مافیا کے ساتھ ملی بھگت کر کے ان کی زمین کا جعلی سودا کیا گیا۔ جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر سیان امریکی ریاست اٹلانٹا میں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ وہ تین مرتبہ بار نیشنل فنانس کمیشن کے رکن رہ چکے ہیں اور کئی ممالک میں گورننس ریفارمز پر کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے کر اکیڈمک اور بین الاقوامی ترقی کے شعبے میں کام شروع کیا، پاکستان بالخصوص اسلام آباد اور خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی۔درخواست کے مطابق متنازع زمین 136؍ کنال اور 17؍ مرلے پر مشتمل ہے، جو 2002ء میں ان کے والد نے خریدی تھی اور 2015ء میں ان کے نام منتقل کی گئی۔ ڈاکٹر سیان کا کہنا ہے کہ جب وہ اقوام متحدہ کے مشن پر بیرون ملک تھے تو جعلی دستاویزات، ایک مشکوک پاور آف اٹارنی (جو ان کے ایک فارم ورکر کے نام پر بنائی گئی تھی) کے ذریعے یہ زمین پاکستان نیوی بینیولنٹ ایسوسی ایشن (PNBA) کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کر دی گئی۔ مزید انکشاف ہوا ہے کہ تقریباً دو سال تک اس فارم ورکر کو 16؍ ادائیگیاں کی گئیں، جبکہ زمین پر زیتون کے درختوں اور دیگر منصوبوں پر کام جاری رہا۔ اگست 2015ء تک پتوکی سے درخت منگوا کر زمین پر لگائے گئے۔ الزام ہے کہ اس سودے میں ایک ’’لینڈ پرووائیڈر‘‘ یعنی لینڈ مافیا کے کارندے کو شامل کیا گیا تاکہ ایسی زمین فروخت کی جا سکے جو اس کی ملکیت ہی نہیں تھی۔ ڈاکٹر سیان نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میں نے کبھی اپنی زمین کی فروخت پر رضامندی نہیں دی۔ میرے ملازم کو دو سال تک ادائیگیاں کی گئیں لیکن مجھے ایک روپیہ تک نہیں ملا۔ درخواست میں انتقال اراضی کے عمل میں سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، جن میں مالک کی لازمی بائیومیٹرک تصدیق کو نظرانداز کیا جانا، جعلی حلف نامہ قبول کرنا، اور عوامی اجلاس میں منظوری کے تقاضے کو بائی پاس کرنا شامل ہیں۔ ڈاکٹر سیان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نیوی بینیولنٹ ایسوسی ایشن کو بھی دھوکہ دیا گیا کیونکہ ریونیو ریکارڈ میں جو قیمت (تقریباً 218؍ ملین روپے) درج ہے وہ نہ صرف مبینہ طور پر ادا کی گئی رقم (383؍ ملین روپے) سے کم ہے بلکہ زمین کی اصل مارکیٹ ویلیو سے بھی کہیں کم ہے جس کا اندازہ انہوں نے 900؍ ملین روپے سے زائد لگایا۔ انہوں نے وزیرِاعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کیس کو اسلام آباد کے بدنام زمانہ لینڈ مافیا کیخلاف ایک ’’ٹیسٹ کیس‘‘ کے طور پر لیا جائے، کیونکہ یہ صورتحال نہ صرف عام شہریوں بلکہ ریاستی اداروں کی ساکھ کیلئے بھی خطرہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ لینڈ مافیا کے فراڈ پر مبنی اقدامات پاک بحریہ اور مسلح افواج کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس معاملے کی فارنزک تحقیقات لازمی ہیں۔ وزیرِاعظم نے فوری نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی کو ہدایت کی ہے کہ ذمہ داروں کا تعین کرے اور ملوث افراد، بشمول سرکاری اہلکاروں، کیخلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔