حالیہ سیلاب کے بعد قومی سطح پر ایک بار پھر اس بحث میں شدت آ گئی ہے کہ کیا پاکستان کو نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے ہونے والی زیادہ تر بحث میں خطے کے دیگر ممالک کی پانی ذخیرہ کرنے سے متعلق پالیسیوں پر بہت کم بات ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر یہ نکتہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو نئے ڈیم یا آبی ذخائر بنانے کی ضرورت نہیںکیونکہ دریاؤں کے نیچے ریت میں مبینہ طور پر 500 ملین ایکڑ فٹ پانی پہلے سے موجود ہے جسے پمپ کرکے زراعت و دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دلائل کی حد تک یہ تھیوری خاصی دلچسپ ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے دریاوں کے اوپری علاقوں میں اگر چین اور بھارت تواتر سے پانی کی سٹوریج کیلئے بڑے ڈیم بناتے رہیں گے تو پاکستان مزید ڈیم نہ بنانے کی صورت میں خشک سالی کے موسم میں اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے درکار پانی کہاں سے لائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دریاوں کے نیچے بہنے والا مبینہ 500ملین ایکڑ فٹ پانی کوئی سالانہ ریچارج ہونے والا ذخیرہ نہیںبلکہ یہ پانی کئی صدیوں پر محیط دریائی رساؤ اور بارشوں کے عمل کے نتیجے میں آہستہ آہستہ جمع ہوا ہے۔ اس لئے اگر اس پانی پر مکمل انحصار کی پالیسی اپنائی گئی تو چند سال میں ہی یہ پانی ختم ہو جائے گا اور پھر ہماری آنے والی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں گی۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ زراعت کا شعبہ سالانہ تقریباً 64 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کرتا ہے جبکہ دریاؤں اور بارش سے زیرزمین پانی کے ریچارج ہونے کی شرح محض 13 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اپنی موجودہ زرعی معیشت کو صرف زیرِ زمین پانی پر چلانے کی کوشش کریں گے تو ہمیں سالانہ 50 ایم ایف سے زائد کا شارٹ فال برداشت کرنا پڑئیگا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اگر دریاوں کے نیچے موجود مبینہ 500 ملین ایکڑ فٹ پانی کا استعمال شروع کر دیا گیا تو یہ آبی ذخائر محض ایک عشرے میں ختم ہو جائیں گے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ ہمیں نئے ڈیم یا بیراج اور آبی ذخائر بنانے کی ضرورت نہیں، قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ ماضی میں کالا باغ ڈیم اور حال ہی میں سیلابی پانی کو استعمال کرنے کیلئے نئی نہروں کے قیام کا مجوزہ منصوبہ پہلے ہی سیاسی مخالفت کی نذر ہو چکا ہے۔ اسلئے حالیہ سیلاب کے باوجود ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف ہم ملک میں نئے آبی ذخائر بنانےمیں مسلسل غفلت برت رہے ہیں بلکہ پہلے سے دستیاب پانی کو بھی غیر ضروری طور پر ضائع کر رہے ہیں۔ اس ساتھ ساتھ بارش کی شکل میں ہر سال مفت میں حاصل ہونے والا لاکھوں ایکڑ فٹ پانی بھی سیوریج سسٹم میں ڈال کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ افسوس کہ ہماری بعض سیاسی جماعتوں نے اس قومی مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے اور انہیں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے منصوبوں پر عمل درآمد کیلئے تیار کرنے کی بجائے قومی مفاد پر اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دی۔ اس کے نتیجے میں جہاں پانی کی قلت کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے وہیں اس سے قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حجم بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس صرف 20 سے 30 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کے پاس 200 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کیلئےپانی کے نئے ذخائر کی تعمیر اس لئے بھی اشد ضروری ہے کہ پاکستان کے دریاوں میں 80 فیصد پانی جون سے ستمبر کے چار مہینوں میں آتا ہے۔ اس دوران مون سون کی وجہ سے بارشیں بھی تواتر سے ہوتی ہیں اور گلیشیئر پگھلنے سے بھی اضافی پانی دریاوں کا حصہ بنتا ہے۔ پاکستان میں آنے والے زیادہ تر سیلاب اسی وجہ سے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس ان چار مہینوں میں آنیوالے پانی کو ذخیرہ کرنے کی مناسب استعداد ہی موجود نہیں ۔ اسی لئے گزشتہ بیس برس میں پاکستان کو دس مرتبہ سیلاب اور چار مرتبہ خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان حالات میں حکومت کو چاہیے کہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو کم از کم سو دن تک بڑھانے کیلئے فوری طور پر عملی اقدامات کرے اور اس سلسلے میں طویل المدت پالیسی بنا کر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اس حوالے سے شہروں اور دیہات میں بھی چھوٹے آبی ذخائر بنا ئے جا سکتےہیں۔ علاوہ ازیں شہروں میں بارش کے پانی کو سیوریج لائنوں میں ڈال کر ضائع کرنے کی بجائے واٹر ریچارج ویل بنا کر گرائونڈ واٹر میں شامل کرکے ناصرف بارش کا پانی زیر زمین ذخیرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ زمینی پانی کے معیار کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ کار شہروں میں لازمی قرار دینے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں زراعت کے شعبے میں بھی پانی کا ضیاع روکنےکیلئے فلڈ اریگیشن کی بجائے ڈرپ اریگیشن، سپرنکلرز اور پیوٹ سسٹم کے ذریعے آبپاشی کو فروغ دیا جائے تو سالانہ لاکھوں ایکڑ فٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔