کراچی (نیوز ڈیسک) سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ، خلیج کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملی کا اشارہ، دفاعی صنعت میں تعاون، ٹیکنالوجی ٹرانسفر، مشترکہ پیداوار اور فوجی تربیت بھی معاہدے کا حصہ ہے۔ اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد اس پیشرفت کا مقصد خطے میں مزید جارحیت روکنے کا پیغام دینا ہے۔ اٹلانٹک کائونسل میں شائع رپورٹ کے مطابق واشنگٹن کے غیر واضح رویے نے خلیجی ممالک کو احساس دلایا بیرونی طاقت پر مکمل انحصار ممکن نہیں رہا۔ معاہدہ خلیج میں نئی سیکورٹی پرت متعارف کروا رہا ہے، جسے دیگر خلیجی و ایشیائی ممالک بھی اپنا سکتے ہیں۔ معاہدہ خلیج ایشیا تعلقات، خصوصاً سعودی بھارت شراکت داری اور انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ اکنامک کاریڈور پر اثر ڈال سکتا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ ریاض کے دوران طے پائے تاریخی اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ کے تحت کسی بھی ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا اور اس میں فوجی تعاون، ایٹمی اشتراک، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور فوجی تربیت جیسے پہلو شامل ہیں۔ یہ معاہدہ ایران اور اسرائیل کے خطرات کے پیشِ نظر سعودی دفاع کو مضبوط بنانے اور خلیج میں نئی سکیورٹی پرت متعارف کرانے کے لیے کیا گیا ہے۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنا جوہری پروگرام سعودی عرب کیلئے دستیاب کرے گا۔ یہ معاہدہ اس بات کی علامت ہے کہ سعودی عرب اب صرف امریکہ پر انحصار کرنے کے بجائے "کثیر الجہتی" حکمتِ عملی اپنا رہا ہے، جس سے خطے میں طاقت کے توازن اور خلیج ایشیا تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔