• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تمام اعلیٰ سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے دسمبر تک قانون سازی کرے، آئی ایم ایف

اسلام آباد(مہتاب حیدر، اسرار خان) پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی آئی ایم ایف مشن نے کہا ہے کہ پاکستان گریڈ 17 سے 22 کے تمام اعلیٰ سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کیلئے دسمبر 2025ء تک قانون سازی کرے، تاخیر ملک کے اصلاحاتی وعدوں پر اثر ڈال سکتی ہے، حکومت گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ (GCD) رپورٹ کو مقررہ مدت کے اندر شائع کرے اور ساتھ ہی گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964میں ایسی ترامیم کرے جن کے ذریعے بدعنوانی میں ملوث افسران کیخلاف کارروائی ممکن ہو سکے تاہم یہ ترامیم وزیراعظم اوروفاقی کابینہ کی منظوری سے ہی ممکن ہیں۔ حکومت کو آئی ایم ایف کی مذکورہ رپورٹ پر سنجیدہ تحفظات ہیں، آئی ایم ایف کی جانب سے اس رپورٹ کی اشاعت کی ڈیڈ لائن 30 ستمبر 2025ہے، لہٰذا توقع ہے کہ یہ رپورٹ آج (منگل) کو شائع ہو جائیگی۔ اس سے پہلے آئی ایم ایف نے پاکستان کو اس رپورٹ کا مسودہ فراہم کیا تھا، جس پر اسلام آباد نے سنجیدہ نوعیت کے تحفظات اٹھائے تھے۔ اب دونوں فریقین نے اس رپورٹ پر تفصیل سے بات کی ہے اور آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ اسے مقررہ وقت کے اندر شائع کیا جائے۔پاکستان میں گریڈ 17 سے 22 تک کے تقریباً 25 ہزار افسران ہیں اور یہ وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے افسران اپنے اثاثے درست طور پر ظاہر نہیں کرتے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کے ریویو مشن کے ساتھ پہلی باضابطہ ملاقات کی۔ یہ اجلاس وزارتِ خزانہ کے Q بلاک، پاک سیکرٹریٹ میں ہوا۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف مشن کو معاشی صورتحال اور مایکرو اکنامک اہداف پر تفصیلی بریفنگ دی۔ ملاقات میں جائزہ مشن نے صوبوں کی جانب سے 1.5 کھرب روپے کا سرپلس ریونیو فراہم کرنے کے وعدے پر بھی سوالات اٹھائے۔ ملاقات میں دونوں فریقین نے رواں مالی سال کے لیے حقیقی جی ڈی پی گروتھ کے ہدف پر بھی بات کی، جو پہلے 4.2 فیصد تھا لیکن حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد اسے 3.9 فیصد سے کم کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف سے درخواست کی کہ وہ سیلاب متاثرہ علاقوں کیلئے وزیراعظم ریلیف پیکیج کی اجازت دے، جو پہلے سے مختص ایمرجنسی فنڈز (بجٹ 2025-26 میں) کے ذریعے فراہم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف نے کہا کہ پہلے ڈیمج اینڈ نیڈز اسیسمنٹ ( نقصان و ضرورت کا اندازہ ) تیار کیا جائے، اسکے بعد ہی کسی پیکیج کی منظوری دی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے صوبوں کی جانب سے 1.5 کھرب روپے کا سرپلس ریونیو فراہم کرنے کے وعدے پر بھی سوالات اٹھائے تاکہ مالیاتی خسارے کو ہدف کے اندر رکھا جا سکے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے عہد کیا ہے کہ رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 2.4 فیصد پرائمری سرپلس پیدا کریگا۔ اجلاس میں صوبوں نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات بھی شیئر کیے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے نقصانات کا تخمینہ 40 سے 50 ارب روپے کے درمیان بتایا گیا۔ پنجاب نے نقصانات کی تفصیل فراہم نہیں کی، تاہم زرعی اور مویشی پالنے کے شعبے کے باعث وہاں کے نقصانات کافی زیادہ سمجھے جا رہے ہیں۔ اگرچہ جی ڈی پی میں نظرثانی کے بعد اندازہ لگایا گیا کہ زراعت کے نقصانات بڑے پیمانے پر نہیں ہوئے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی GCD رپورٹ نے پبلک فنانس مینجمنٹ، ایف بی آر کے ٹیکس نظام اور اے جی پی آر کی کارکردگی میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔رپورٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف نے پاکستان سے سفارشات پر عمل درآمد کیلئے ٹائم لائنز مانگیں۔ اثاثہ جات کے انکشاف (Asset Declaration) کے بارے میں بتایا گیا کہ گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964 میں ترمیم وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی منظوری سے ممکن ہے تاکہ سرکاری افسران کی اثاثہ جات کی ڈیکلیریشنز کو ڈیجیٹل بنایا جا سکے، جس پر پاکستان نے رضامندی ظاہر کی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان خبردار کیا ہے کہ سال کے آخر تک اعلیٰ سرکاری افسران کے اثاثے عوام کے سامنے ظاہر کرنے میں مزید تاخیر ملک کے اصلاحاتی وعدوں پر اثر ڈال سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فنڈ کا ہدف صرف سول بیوروکریسی ہے۔حالیہ ملاقات میں، جو آئی ایم ایف حکام اور پاکستانی حکام کے درمیان ہوئی، فنڈ نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ دسمبر 2025 تک ایسا نظام تیار کرے جسکے تحت گریڈ 17 سے 22 کے افسران کے اثاثوں کا انکشاف یقینی بنایا جا سکے۔ آئی ایم ایف پچھلے سال سے اس مسئلے پر اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہا ہے، لیکن پیش رفت بار بار مؤخر ہوتی رہی ہے۔ذرائع کے مطابق، فنڈ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تکنیکی مدد فراہم کرنے کا کام سونپا ہے۔ نئے طریقہ کار کے تحت ایف بی آر ان سرکاری افسران کی غلط یا نامکمل اثاثہ جات کی تفصیلات کی نشاندہی کرے گا۔

اہم خبریں سے مزید