• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک دفاعی شراکت داری کا تاریخی معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت پر ہونیوالے حملے کو ابھی چند ہی روز گزرےتھے۔ اسرائیل کی اس کھلی جارحیت کے بعد سے جہاں عرب ممالک میں قومی سلامتی کے حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے وہیں عرب ممالک کی طرف سے دفاع کے حوالے سے امریکہ پر انحصار کی دیرینہ پالیسی میں تبدیلی کیلئے بھی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد بھی امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کے عزم نے عرب ممالک کے اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچائی ۔ ان حالات میں سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ دفاع کا معاہدہ کرکے خطے کے دیگر اسلامی ممالک کو مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ اس معاہدے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کیخلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے اور ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کیخلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین یہ معاہدہ دونوں ممالک کی اپنی سلامتی و دفاع اور خطے سمیت دنیا بھر میں قیامِ امن کے مشترکہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عسکری تعاون کئی دہائیوں سے جاری ہے جسے اب ایک مستقل معاہدے کی شکل دیدی گئی ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف بھی گزشتہ نو سال سے سعودی عرب میں 40 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامک ملٹری کاونٹر ٹیررازم کولیشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس اسٹرٹیجک دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس معاہدے کا اعلان ہونے کے بعد سے اسرائیل کے جارحیت پسند وزیر اعظم نیتن یاہو کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کو نئی صورتحال کے چیلنجز کا ادراک ہو گیا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مشترکہ دفاع کے اس معاہدے نے سعودی عرب کے کثیر وسائل اور پاکستان کی مضبوط فوجی صلاحیت کو یکجا کرکے مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کو درپیش خطرات کے آگے ایک مضبوط بند باندھ دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھی اسرائیل کے راستے کی بڑی رکاوٹ ثابت ہو گی۔ اس حوالے سے یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ آنیوالے چند ہفتوں میں دیگر عرب ممالک بھی پاکستان کے ساتھ اسی نوعیت کے دفاعی معاہدے کرنے جا رہے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اہم ثابت ہو گا بلکہ اس سے غزہ میں جنگ بندی کی عالمی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔ اس دفاعی معاہدے کو عالمی سطح پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خارجہ پالیسی کے ماہرین برملا اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان نے غیر معمولی سفارتکاری کی بدولت خطے میں امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کی مشترکہ سیاسی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا ہے۔

موجودہ صورتحال میں اپنی غیر معمولی حکمت عملی سے پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں مرکزی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ اس طرح پاکستان نے چین کی سربراہی میں بننے والے نئے عالمی اتحاد میں بھی اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا ہے۔ اس لئے آنیوالے وقت میں امریکہ کیلئے پاکستان کو نظر انداز کرنا یا پاکستان پر دباو ڈالنا آسان نہیں ہو گا۔ اس کامیابی کو اگر مئی کے مہینے میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی اہمیت کو مزید بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص پاکستان کی قومی تاریخ کے وہ سنہری ابواب ہیں جنہوں نے اقوام عالم میں ہمارے لئے کامیابیوں کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ آج دنیا پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے جو اپنی سلامتی کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بھارت سے ہونے والی جنگ میں کامیابی کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار جوہری قوت ہے جو اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ چین نے پاکستان کو پہلے ہی اپنا’’آئرن بَرادر‘‘ قرار دے رکھا ہے اور اب مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک نے بھی اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ نے بھی اب خاص طور پر دہشت گردی کو شکست دینے اور علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے میں پاکستان کی قربانیوں اور کامیابیوں کا کھل کر اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے۔ عالمی فورمز پر علاقائی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے فریم ورک کی تشکیل میں پاکستان کی آواز کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کے رویے میں یہ تبدیلی پاکستان کی فوجی صلاحیتوں اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر کامیابی کا واضح ثبوت ہے۔

یہ حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان محض ایک فوجی طاقت کے طور پر ہی نہیںبلکہ ایک سفارتی قوت کے طور پر بھی ابھر رہا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان عسکری اور سفارتی کامیابیوں کو معاشی خودمختاری اور پائیدار قومی ترقی کیلئے بروئے کار لایا جائے۔ اس کیلئے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ، صنعتی ترقی اور معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دوست ممالک سے تجارت کو فروغ دے کر دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی بھی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین