• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شان الحق حقی کی تصنیفات محققین کیلئے مشعل راہ ہیں، ماہرین

اسلام آباد ( جمیلہ اچکزئی)شاعر، ادیب، ماہرِ لسانیات اور لغت نویس شان الحقّی کی اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمعرات کو ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ تقریب ان کے انتقال کی بیسویں برسی کے موقع پر نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ (سابقہ مقتدرہ قومی زبان) کے زیرِ اہتمام منعقد کی گئی۔مقررین نے شان الحقّی کو ایک ایسے بلند پایہ عالم اور صاحبِ نظر محقق کے طور پر یاد کیا جنہوں نے لغت نویسی، ترجمہ نگاری اور شاعری کے ذریعے اردو زبان کو دنیا کی بڑی زبانوں کے ہم پلہ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حقّی کی تصنیفات آج بھی طلبہ، محققین اور محبانِ اردو کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔تقریب کی صدارت معروف شاعر و دانشور افتخار عارف نے کی، جب کہ لسانیات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور محقق ڈاکٹر غلام علی مہمانِ خصوصی تھے۔ ملک بھر سے اساتذہ، محققین، شعرا، ادبا اور طلبہ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔حقّی صاحب کے فرزند شیان حقّی لندن سے خصوصی طور پر اس تقریب میں شریک ہوئے اور انہوں نے اپنے والد کے کتب، تمغے اور ایوارڈز مقتدرہ کے حوالے کیے۔ادبا و محققین نے لغت نویسی، ترجمہ نگاری، اردو ادب میں تحقیقی کام اور تخلیقی اسلوب کے حوالے سے تفصیلی مقالے پیش کیے۔ تقریب کی نظامت محبوب ظفر نے کی، جنہوں نے حقّی کے علمی و ادبی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ ایک کثیراللسانی محقق تھے ۔افتخار عارف نے کہا کہ شان الحقّی نے آخری سانس تک “لفظ” کی خدمت کی۔انہوں نے بتایا کہ حقّی نے اردو میں “نشریاتی رابطہ” جیسی اصطلاح متعارف کرائی اور وہ نفاست و شائستگی کے شاعر و نثرنگار تھے۔ “ان کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں — ان کی کتابیں خود بتاتی ہیں کہ وہ کس درجے کے عالم تھے۔”ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے کہا کہ حقّی کی لغت نویسی نے اردو کو عالمی زبانوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔“اگر آج اردو کو دوسری زبانوں کے برابر سمجھا جا سکتا ہے تو اس کا سہرا حقّی کے سر جاتا ہے۔”۔ڈاکٹر غلام علی نے حقّی کو نثر و نظم دونوں میں ہمہ جہت شخصیت قرار دیا۔”ڈی جی مقتدرہ، ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے کہا کہ حقّی نے اپنی پوری زندگی پاکستان، مسلم شناخت اور اردو کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔“لغت نویسی، تحقیق، ترجمہ، لسانیات اور ادب — اردو کا کوئی میدان ایسا نہیں جہاں حقّی نے اپنی چھاپ نہ چھوڑی ہو۔۔شیان حقّی نے اپنے والد کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا:“حقّی صاحب اپنے کام کے اس قدر شیدائی تھے کہ گھرانے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔”انہوں نے والد کے آخری ایام اور ذاتی زندگی کے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے سامعین کو متاثر کیا۔ادبی نقاد رابعہ کیانی نے کہا کہ حقّی کے کام سے ان کی اردو سے گہری محبت جھلکتی ہے۔“ان کی تحریروں کی وسعت ثابت کرتی ہے کہ وہ اردو ادب کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔”
اہم خبریں سے مزید